چیلنجز کیا ہیں ؟
طویل عرصے سے مسلم دنیا میں اسلام کی شدت پسند تشریح کو اپنا بیانیہ بناکر پیش کرنے والا سعودی عرب اب اسلام کی اس شدت پسندانہ تشریح یعنی وھابیت سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے ۔لیکن اس کے سامنے شاید سب سے اہم چیلنج وہ متبادل بیانیہ ہے جو وھابی سخت گیر تشریح کی جگہ بٹھایا جاسکتا ہے ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بظاہر اس کی کوشش ہے کہ سابقہ سخت گیری مذہبی بیانیے کی جگہ نیشنلزم یا قومیت کے بیانیے کو جگہ دی جائے ۔سعودی عرب کی پوری کوشش ہے کہ قومیت کے بیانیے کے ذریعے سے نہ صرف سماج بلکہ صرف تیل پر کھڑی معیشت کو بھی متبال ذرائع فراہم کئے جائیں ۔لیکن گہری قبائلی رسومات کی عینک سے کی گئی دینی تشریح سے چھٹکارہ شائد سعودی عرب کے لئے آسان نہ ہو اور اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ حکمران خاندان اور عوام کے درمیان موجود فاصلے میں مزید اضافہ ہوگا ۔
اب تک سعودی عرب کی خارجہ و داخلہ پالیسی روائتی سخت گیرتشریح دین کا فروغ ہی رہی ہے کہ جہاں کسی اوردینی یا اسلامی مذاہب اور مکاتب فکر کے لئے نہ صرف کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی بلکہ سختی کے ساتھ ملک کے اندر اور ملک کے باہر بھی ان مذاہب اور مکاتب فکر کوکچلنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔
سن 1932میں کہ جب سے سرزمین حجاز پر سعود خاندان کی بادشاہت کا آغاز ہوا ہے، تب سے اب تک بادشاہت اور عوام کے درمیان رشتے کو اسی قبائلی عینک سے کی جانے والی سخت گیر دینی تشریح نے برقرار رکھا ہوا تھا کہ جسے دنیا آج وھابیت ،سلفیت ،جہادیت ۔۔۔جیسے ناموں سے جانتی ہے ۔
اسی رشتے کی بنیاد پر سعود خاندان نے ملک کے اندر اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز یہاں تک کہ بنیادی حقو ق کی ڈیمانڈ کو بھی بڑی آسانی کے ساتھ دبائے رکھا ہے ۔
دلچسب بات یہ ہے کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں عرب دنیا میں اٹھنے والی پان عرب ازم کی تحریکوں کی سعودی عرب سخت مخالفت کرتا رہا ہے ،مصری رہنما جمال عبدالناصر کی قیادت میں عربی قومیت کے نعرے کو خطے کی زیادہ تر بادشاہتیں اپنے لئے خطرہ سمجھتی تھیں۔عرب قوم پرستی کے نعروں کا مقابلہ اسی سخت گیر اسلامی تشریح کے ذریعے سے سعودی عرب کرتا آیا ہے لیکن اب لگتا ہے کہ اسے اس تشریح سے بھی خطرات محسوس ہونے لگے ہیں ۔
تاریخی حوالے سے کہا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ پر اسی شدت پسند تشریح میں پروان چڑھنے والا مبلغ جہیان کی جانب سے اسلامی خلافت کے اعلان جیسے واقعے نے سعودی عرب کو خطرے کا احساس دلایا تھا ۔اسی طرح ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب سے بھی سعودی عرب اور خطے کی بادشاہتیں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی تھیں کیونکہ اس انقلاب کے نعرے میں اسلامی جمہوریہ کا تصور خطرہ بن کر سامنے آیا تھا
وہ اس انقلاب کے بانی کی جانب سے پیش کردہ سیاسی نظام یعنی جمہوریت اور اسلامیت کی تشریح سمیت مسلم امہ کے بہت سے سلگتے مسائل کے انقلابی حل کی جانب رہنمائی کو بھی اپنی بادشاہت کے لئے خطرہ سمجھتے تھے ۔اسی طرح گذشتہ کچھ سالوں میں بہت سے عرب ممالک میںاٹھنے والی جمہوریت پسند تحریکوں نے بھی انہیں ہلا کر رکھ دیا ہے کہ ان تحریکوں میں جمہوریت کے ساتھ اسلامیت کی آمیزش واضح تھی ۔
اب تک سعودی عرب میں علمائے دین کا کردار انتہائی فعال رہا ہے اور بادشاہت نے بھی اس کردار کو مکمل موقع فراہم کیا ہوا تھا ،علما کے سامنے واحد شرط یہ تھی کہ وہ عوام کو بادشاہت کے ساتھ جوڑے رکھیںگے یہی وجہ ہے کہ بادشاہ دینی اولیا الامر کہلاتے ہیں کہ جن کی مخالفت وھابی تشریح دین میں حرام ہے ۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے ہم سعودی عرب میں بادشاہت اور سخت گیردینی تشریح کے درمیان ایک قسم کا کھچاو ٔ محسوس کرسکتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ہم علما کے کردارو اختیار کو بھی کم ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں جس کی سب سے اہم وجہ اس تشریح دین کےبہت سے فالورز کی جانب سے بادشاہت کو حاصل دینی پوزیشن کا انکار کرنا ہے ،کہ اب وہ بادشاہ کو ظل سبحانی یا دینی سرپرست ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔
ناین الیون کے بعد سعودی بادشاہت نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ اسے سخت گیرمذہبی بیانیے کی جگہ قومیت کے بیانیے کو جگہ دینی ہوگی ۔سعودی سماج پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سابق بادشاہ عبداللہ نے قومیت کی ایک ایسی تشریح کی کوششوں کا آغاز کیا تھا کہ جہاں سعودی سماجی ،تاریخی ،ثقافتی بنیادوں پر استوار قومیت کی ایک ایسی وضاحت سامنے لائی جائے جو معاشرتی ساخت اور آداب و رسوم کو چھیڑے بغیر سخت گیر مذہبی تشریح کی جگہ لے لے ۔
جہاں مختلف قبائل اور ادیان و مذاہب کے لئے بھی گنجائش موجود ہو اور ان تمام سابقہ اختلافات کابھی خاتمہ کرے جو وھابی دینی تشریح کے سبب پیدا ہوئے ہیں اور مملکت نے اسے ایک بیانیہ کے طور پر اپنایا ہوا تھا ۔تو کیا وہ اس میں کامیاب ہوسکیں گے ؟اور آخر قومیت ہی شدت پسند تشریح کا متبادل کیوں ؟جاری ہے ۔۔۔۔۔(بشکریہ فوکس ویسٹ اینڈ ساؤتھ ایشیا)