(قیوم نظامی)
دوسری عالمی جنگ کے بعد انیس سو سینتالیس میں سرد جنگ کا آغاز ہوا ، امریکہ اور روس دنیا کی دو بڑی طاقتیں تھیں، روس کیمونزم کا حامی تھا جبکہ امریکہ کیپیٹل ازم کا علمبردار تھا اور روس کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرورسوخ کو روکنا چاہتا تھا۔ چناچہ اس نے اپنے اتحادی ملکوں کے ساتھ مل کر ایک حکمت عملی تیار کی جسے سرد جنگ کا نام دیا گیا۔ اس حکمت عملی کا مقصد یہ تھا کے روس کے بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ عزائم روکا جائے۔ یہ سرد جنگ 1947ء میں شروع ہوئی اور انیس سو اکانوے میں ختم ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب قائداعظم سے خارجہ پالیسی کے بارے میں مشورہ کیا گیا تو انہوں نے تاریخی جملہ کہا:
The devil we know is better than the devil we
جس کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ کو ہم پرانا جانتے ہیں، جب کہ روس کے ساتھ ہمارے روابط نہیں رہے، اس لئے پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ امریکہ نے سرد جنگ جیتنے کے لئے پاکستان کی فوج کو مضبوط بنایا اور جب موقع آیا اسے روس کے خلاف استعمال کیا۔ سرد جنگ کے نتیجے میں روس کو افغانستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس شکست کے بعد روس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور بن کے سامنے آیا۔ پاکستان نے آزادی کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا کیونکہ امریکہ نے تحریک پاکستان میں خصوصی دلچسپی لی تھی۔ اسے مسلمان فوج کی صلاحیتوں کا پورا ادراک تھا جو بھارتی فوج کا حصہ تھی۔ امریکہ دوراندیش تھا، اس کو علم تھا کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان محل وقوع کے اعتبار سے دنیا میں بڑی اہمیت حاصل کر جائے گا۔ لہٰذا اس نے پاکستان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں خصوصی دلچسپی لی اور سرد جنگ جیتنے کے لئے پاکستان کو پراکسی وار میں فرنٹ لائن سٹیٹ بنا دیا۔
جب روس نے افغانستان میں اپنی افواج بھیجیں تو پاکستان نے اپنے قومی مفاد میں کم اور امریکی مفاد میں زیادہ افغانستان میں روس کے خلاف جنگ لڑی ،افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ البتہ روس کو شکست ہوئی اور پرانی سرد جنگ انیس سو اکانوے میں اپنے انجام کو پہنچی۔ روس کی شکست کے بعد امریکی مفکر فوکویاما نے اعلان کیا کہ سرمایہ درانہ نظام اور سوشلزم کشمکش میں ہیں۔ سوشلزم چونکہ شکست کھا چکا ہے، اس لئے تاریخ کا سفر انجام کو پہنچ گیا ہے۔ لبرلزم اور سرمایہ دارانہ نظام دنیا کی واحد حقیقت ہے اور اب باقی دنیا کو اسی نظام کے ساتھ وابستہ ہونا ہوگا۔ امریکی غرور کی وجہ سے امریکی دانشور کی پیشین گوئی درست ثابت نہ ہوئی، دیکھتے ہی دیکھتے روس اور چین دنیا کی بڑی طاقتیں بن کر اُبھرنے لگیں۔ امریکہ اور یورپ چین کے اُبھار کو سمجھنے میں ناکام رہے ، دونوں کا یہ خیال تھا چین نے چونکہ اپنے ملک کو سرمایہ کاری کے لئے کھول دیا ہے، اس لئے رفتہ رفتہ وہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع ہو جائے گا اور امریکہ اور یورپ کے لیے خطرہ نہیں بن سکے گا۔ چین کی عظیم قیادت اور عوام نے امریکہ اور یورپ کے اندازوں کو غلط ثابت کردیا اور اپنی تجارت کو اس حد تک بڑھا لیاکہ اب امریکہ چین کے ساتھ ساڑھے تین سو ارب ڈالر سالانہ کے خسارے کی تجارت کر رہا ہے۔ امریکہ روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے ایک بار پھر خوفزدہ ہے اور اب امریکہ اور روس چین کے درمیان نئی سرد جنگ چل رہی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ وہ بدستور دنیا کی سپر پاور کے درجے پر فائز رہے‘ چین اور روس اس کے مقابلے میں نہ آ سکیں۔ امریکہ نے چین کا راستہ روکنے کے لیے اس پر تجارتی پابندیاں لگائی ہیں اور اس کے خلاف مختلف الزامات لگانے شروع کر دئیے ہیں۔ دوسری طرف چین نے اپنے عالمی اثرورسوخ کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ شروع کیا ہے، سی پیک اس کا مرکزی نکتہ ہے۔
پاکستان دس سال دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ لڑنے کے بعد اور جانی و مالی قربانیاں دینے اور امریکی بیوفائی کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ اب وہ کسی پرائی جنگ میں شریک نہیں ہو گا۔ پاکستان نے چین کے ساتھ اپنی دوستی کو مستحکم کیا ہے اور پوری توجہ کے ساتھ سی پیک کے منصوبے کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے۔ پرانی سرد جنگ میں بھارت کا جھکاؤ روس کی جانب تھا جبکہ نئی سرد جنگ میں وہ امریکہ کا اتحادی ہے اور پاکستان و چین کے خلاف مختلف سازشیں کر رہا ہے تاکہ سی پیک کا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ ایک جانب امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے جبکہ بھارت پاکستان کو اندر سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نئی سرد جنگ میں چین روس ایران اور پاکستان کی کوشش یہ ہے کہ ایشیا میں امریکہ کا اثر و رسوخ کم سے کم کیا جائے جو امریکہ کو گوارا نہیں ہے۔ نئی سرد جنگ کچھ عرصہ جاری رہے گی اور اور غیرجانبدار عالمی مفکرین کے مطابق آخرکار چین اور روس نئی سرد جنگ جیت جائیں گے اور امریکہ کو ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔
تاریخی اعتبار سے افغانستان بیرونی افواج کا قبرستان بنتا رہا ہے۔ افغانستان میں پہلے برطانوی افواج بعد میں روسی افواج اور امریکی افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، امریکہ نے شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔ افغان جنگ میں اسے کھربوں ڈالر خرچ کرنے پڑے ہیں، اب اسے وہاں سے نکلنے کے لئے فیس سیونگ کی ضرورت ہے۔ اس کی دلی خواہش ہے کہ طالبان مذاکرات کی میز پر آجائیں اور امریکہ کو فیس سیونگ دینے پر مائل ہو جائیں تاکہ وہ عالمی سطح پر شکست کی خفت سے بچ سکے۔ نئی سرد جنگ میںپاکستان نے کلیدی اہمیت اختیار کر لی ہے، اس جنگ کے اختتام کا انحصار بہت حد تک پاکستان پر ہے، جس کی افواج کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ البتہ پاکستان کو اندرونی استحکام اور گورننس جیسے مسائل کا سامنا ہے، پاکستان کے دشمن اسے اندر سے توڑنے کے لیے سازشیں کر رہے ہیں مگر ابھی تک پاکستانی قوم کو اس حساسیت کا پوری طرح ادراک نہیں ہو سکا۔ کاش پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں موجودہ نازک صورتحال کو سمجھ سکیں اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے قومی یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کریں۔
زمینی حقائق کے مطابق روس اور چین کے نئی سرد جنگ جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگر یہ معجزہ ہو گیا تو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دروازے کھل جائیں گے، نئے مواقع پیدا ہوں گے مگر لازم ہے کہ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان پوری طرح تیار ہو تا کہ گزشتہ تاریخی موقع کی طرح ہم یہ نادر موقع جو صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے بھی نہ گنوا بیٹھیں۔ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر کمال کے بعد زوال آتا ہے، امریکہ کا زوال اب اس کا مقدر بن چکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اس زوال کو مزید تیز کر رہے ہیں، انہوں نے اقوام متحدہ اور عالمی اصولوں کو نظر انداز کر دیا ہے اور ہر ملک کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو قومی اور انفرادی مفاد کے لئے انتشار اور نفاق سے نکل کر اتحاد اور اتفاق کی طرف آ جانا چاہئے۔
امریکہ نے طویل جنگ لڑنے کے بعد اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے کوششیں بھی تیز کر دی ہیں۔ طالبان کو میز پر لانے کے لئے پاکستان کی حمایت حاصل کی جا رہی ہے، امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کے منتخب وزیراعظم عمران خان سے جلد ملاقات کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ خارجہ پالیسی میں یہ کامیابی صرف اس وجہ سے حاصل ہو سکی ہے کہ آج ریاست کے تمام ادارے ایک صفحہ پر ہیں اور ان کے درمیان قومی مفادات کے سلسلے میں مکمل طور پر یکجہتی پائی جاتی ہے جو گزشتہ حکومت میں مفقود تھی بلکہ سول ملٹری تعلقات کشیدگی اور تناؤ کا شکار ہو چکے تھے۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو دنیا کے تبدیل ہوتے ہوئے منظرنامے کا پورا ادراک ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اب نہ صرف اپنے ہمسایہ ممالک بلکہ عالم اسلام کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید خوشگوار اور دوستانہ بنانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ پاکستان کی روس کے ساتھ قربت بڑھ رہی ہے، ایشیائی طاقتیں اگر متحد رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ امریکہ کو ایشیا میں اپنی مداخلت کم سے کم کرنی پڑے۔ عسکری اور سفارتی مبصرین کا خیال ہے آنے والی ایشیا کی صدی ہے اور نئی سرد جنگ میں امریکہ کی شکست یقینی ہو چکی ہے۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے آنے والے عالمی منظرنامے میں بھی کلیدی اہمیت کا ملک رہے گا۔