ہفتہ , 30 ستمبر 2023

شام میں ناکامی کا اٹل فیصلہ

خطہ پھر سے نئی پوزیشنوں میں

کچھ دن پہلے میڈل ایسٹ آئی نے انکشاف کیا کہ خلیجی عرب ملک میں سے کسی ملک میں گذشتہ سال کے آخری مہینے میں ایک اہم میٹنگ ہوئی اس میٹنگ میں چار ملکوں کے خفیہ اداروں کے سربراہ شامل تھے ،اس میٹنگ کا موضوع ترکی کا خطے میں بڑھتا ہوا اثر رسوخ تھا ۔

میٹنگ میں شریک ممالک مصر ،امارات ،سعودی عرب اور اسرائیل اس پلان پر بات کررہے تھے کہ جس کی بنیاد پر شام کے صدر بشار الاسد نے عرب لیگ میں واپسی کرنی ہے اور عرب ملکوں نے شام کی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنا ہے اور خطے سمیت شام میں ترکی کےاثر رسوخ کو کیسے کاونٹر کیا جانا ہے ۔

واضح رہے کہ شام میں ناکامی کے اٹل فیصلے کے بعد خطے میں ہر ملک اور اتحاد اپنی اپنی پوزیشن کو عسکری و سیاسی میدانوں میں ریشیب کرنے میں لگا ہوا ہے ۔
میڈل ایسٹ آئی کے مطابق اس میٹنگ میںخاشقجی قتل کے بعد سعودی عرب اور امریکی تعلقات کی سطح پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ۔

سب سے بڑے خطرے کا مقابلہ
اس میٹنگ کے شرکا کا خیال تھا کہ خطے میں ایران سے زیادہ ترک عسکری قوت کے خطرے کا مقابلہ انتہائی ضروری ہے ۔عرب میڈیا اور میڈل ایسٹ آئی کے مطابق اس میٹنگ میں چار اہم نکات ایسے تھے کہ جس پر شرکا کا اتفاق یکھائی دیا۔

الف:افغانستان سے امریکی افواج کے جلد انخلا کے لئے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں جلدی انتہائی ضروری ہے ابوظبی میںطالبان ،امارات پاکستان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی نشستیں اسی تناظر میں کی گئیں تھیں ۔

ب:عراق میں سنی کارڈ کو تھامے رکھنا اور عراقی پارلیمان میں سب سے بڑے سنی سیاسی اتحاد کے ساتھ قریبی تعلقات تاکہ عراق میں ترک اثر رسوخ کو کم سے کم کیا جاسکے اور ترک عراقی سنی سیاسی پلیٹ فارم پر اپنا اثر و رسوخ نہ بڑھا سکیں ،17دسمبر 2018کو اس سیاسی اتحاد کے رہنما محمد الحلبوسي کا دورہ ریاض اسی حکمت عملی کے سبب انجام پایا تھا کہ جہاں اس نے عراق میں سابق سعودی سفیر سے بھی ملاقات کی تھی ۔

ج:تینوں عرب ممالک کا شام کے ساتھ مکمل ڈیپلومیٹک تعلقات کی بحالی اور بھر پور انداز سے تعاون کرنا کہ جو عملی طور پر اس وقت دیکھائی دے رہے ہیں ۔

د:شام کردوں کی ترکی کیخلاف مکمل حمایت اور تعاون جس کے لئے وہ شام سمیت عراق میں بھی کردستان حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرینگے اور تعاون کا یہ دائرہ عراقی حدود سے لیکر ترک حدودتک فعال کردار ادا کرے گا ۔اسی اثنا میں عرب میڈیا کے مطابق ترک مخالف کردوں کے ساتھ سعودی عرب اور امارات کے تعلقات میں اضافہ دیکھا جاسکتا ہے اور ترک میڈیا میں بھی اس کی چہیخ و پکار دیکھائی دینے لگی ہے ۔

ماضی میں بھی شام کے شہر رقہ میں موجود کردوجنگجووں سے عراق میں سعودی سابق سفیر نے ملاقات کی تھی اور اور اگست 2018میں کردعلاقوں کی بحالی کے لئے سو ملین ڈالر امدا د کا اعلان کیا تھا ۔

شام کے ساتھ تعلقات میں اس بات کا مطالبہ کیا جائے گا کہ شام کی حکومت ایران کے ساتھ تعلقات میں موجود غیر معمولی سطح کو کم کردے اور ایران اور دیگر ممالک کے درمیان تعلقات میں بیلنس قائم رکھیں۔ سوڈانی صدر بشیر العمر کے دورے مقصد بھی اسی پہلو کو لئے ہوئے تھا ۔

واضح رہے کہ بشیر العمر کے دورے سے پہلے شام کے صدر بشار کے خاص ایڈوائزر جرنیل علی مملوک نے قاہرہ کاپہلا منفرد نوعیت کا رسمی دورہ کیا تھا ۔شام سے تعلقات کی بحالی کے بدلے میں اس بات کا بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ ترکی ،قطر اور اخوان المسلمون کے ساتھ اپنارویہ مخاصمانہ رکھے ۔

کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے بھی شام کے کچھ تاجروں کے زریعے سے کچھ پیغامات پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔میڈل ایسٹ آئی کا کہنا ہے کہ خاشقجی قتل کے بعد یہ ابوظبی کے ولی عہد محمد بن زائد تھا کہ جس نے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان سرد اور کشیدہ ہوتے ہوئے تعلقات کو رام کرنے میں اہم کردار نبھایا ہے ۔

ادھر دوسری جانب شام کے علاقے نہر فرات کے مشرقی حصے میں ترک افواج کی نقل و حمل میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے یوں لگ رہا ہے کہ ترکی کسی بھی وقت اس حصے میں گھس آنا چاہتا ہے

دلچسب بات یہ ہے کہ اس حصے میں موجود کردجنگجو اس علاقے کو شام کی افواج کے حوالے کرکے انخلاکرنے کا کہہ رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ترک اپنی عسکری قوت کو بڑھاوا دے رہاہے

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ترکی منبج نامی اس علاقے پر اپنے کنٹرول سے شام کے سیاسی اکھاڑے میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا چاہتا ہے ۔
تو اس وقت شام کے عسکری میدان کا جغرافیہ کیسی پوزیشن رکھتا ہے ؟اور کیا عسکری میدان حاصل شدہ کوئی پوزیشن ترکی یا کسی اور کے لئے بہتر سیاسی پوزیشن دے سکتی ہے ؟اور کیا خطے کے حالات اور شام کی حکومت و اتحاد ترک افواج اور حکومت کو عسکری و سیاسی میدانوں میں ایک ایسی پوزیشن آسانی کے ساتھ دے سکتے ہیں ؟ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ فوکس مڈل ایسٹ

یہ بھی دیکھیں

ایک نیا اسٹریٹجک معاہدہ

(تحریر: کاظم صادقی) امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بحرین کے وزیراعظم کے ساتھ ایک …