جمعرات , 8 جون 2023

شراب ممنوع ہے جناب

(تحریر؛ ڈاکٹر ندیم عباس)

آج صبح راستے میں اسلام آباد کی اہم شاہراہوں پر یہ بینرز لگے دیکھے کہ شراب مسیحیت میں حرام ہے، اس پر پابندی لگائی جائے۔ چند دن پہلے پی ٹی آئی کے ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار وینکوانی نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے نام پر جو شراب فروشی جاری ہے، اس کا خاتمہ کیا جائے اور شراب کو مکمل طور پر ممنوع کر دیا جائے۔ کوئی بھی مذہب نشہ کو اچھا نہیں سمجھتا۔ بعض مذاہب اخلاقی طور پر اور مذاہب میں قانوناً شراب پر پابندی ہے، یہ کسی بھی مذہب کا پسندیدہ مشروب نہیں ہے۔ مذہب تہذیب اخلاق کرتا ہے، اس لیے ہر اس چیز سے منع کرتا ہے، جو اخلاق میں فساد کا موجب بنے۔ اقلیتوں کو اجازت ہے کہ وہ شراب بنا سکتے ہیں اور اس کی خرید و فروخت کرسکتے ہیں۔ اس سے عام مسلم معاشرے میں اقلیتوں کی بہت بدنامی ہوتی ہے، لوگ طرح کے القابات دیتے ہیں، جو یقیناً غلط ہے، اس سے تنگ آکر اقلیتیں خود سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ شراب پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔

میرے خیال میں شراب نوشی مذہبی سے زیادہ تہذیبی اور ثقافتی مسئلہ ہے، مغرب اگرچہ نام کی حد تک مسیحی ہے، لیکن تہذیبی طور پر اس نے ایک ملحد ثقافت کو اپنا لیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں شراب نوشی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ویسے بھی انفرادیت کی بنیاد پر قائم مغربی معاشرہ جب خودکشی کو قبول کرسکتا ہے تو شراب کا نقصان تو بہرحال اس سے کم ہے۔ جیسے جیسے مغربی تہذیب مشرق میں پھیلائی جا رہی ہے، اس کے لوازمات بھی آہستہ آہستہ سامنے آتے رہتے ہیں۔ مغرب میں تو شراب کی ایک بڑی انڈسٹری ہے، جس سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں، مالی مفادات کے لیے نسلیں قربان ہو جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں، شراب پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ کہیں سرمایہ درانہ نظام کے کسی حصہ دار کو کوئی نقصان نہ ہو جائے۔

لبرم ازم کے نام پر ذاتی خواہشات کو آزادی کا نام دینے والے اسلام پر یہ سوال اٹھاتے تھے کہ اس میں شراب حرام ہے۔ اسلام نے جس حکمت کے تحت شراب کو صریحاً حرام قرار دیا تھا، آج مشرقی و مغربی معاشرے اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں شراب کو ممنوع قرار دینے کی قرارداد تو رد کر دی گئی، مگر کئی غیر مسلم اسمبلیاں ایسی ہیں، جہاں پر شراب کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی ریاست بہار میں ایک قانون منظور کیا گیا، جس میں شراب پینے پر دس سال قید کی سزا تجویز کی گئی، اب اس میں نرمی کی گئی ہے، جس کے مطابق پہلی بار شراب پینے پر پچاس ہزار روپے جرمانہ ہوگا، جرمانہ نہ دینے پر تین ماہ قید ہوگی۔ دوسری بار شراب پینے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ اور پانچ سال تک قید ہوسکتی ہے۔ شراب کے کاروبار پر پہلے پورے محلے یا گاوں کو سزا تجویز کی گئی تھی، جس خاندان سے شراب برآمد ہوگی اسے بھی سزا تھی، جس کو اب ختم کر دیا گیا ہے۔ اس قانون کے نتیجے میں آٹھ ہزار دس شراب بیچنے والے پکڑے گئے، تیس پینے والوں کو سزا ہوئی ہے۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے پانچ اپریل دو ہزار سولہ کو یہ پابندی لگائی گئی۔ بہار کے علاوہ بھی ہندوستان کی دو ریاستی اسمبلیوں نے شراب کو ممنوع قرار دے رکھا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شراب پر پابندی کیوں لگائی گئی اور اب تک اس کے کیا فوائد ہیں؟ شراب پی کر گاڑی چلانے سے روڑ ایکسیڈنٹ بہت زیادہ ہوگئے تھے، جن میں شراب پر پابندی سے کمی واقع ہوئی۔ شراب پی کر خواتین پر بہت زیادہ تشدد کیا جاتا تھا، بیوی پر تشدد تو مردہ معاشروں میں تشدد ہی شمار نہیں کیا جاتا، بیوی کے ساتھ ساتھ بہن، بیٹی اور ماں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، جس میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ شراب پینے والے عام لوگ اپنی آمدن کا اچھا خاصا حصہ شراب پر خرچ کر رہے تھے، شراب پر پابندی سے ان کی یہ آمدن بچوں کی اچھی تعلیم، والدین کے علاج یا کسی بھی اچھے مقصد میں خرچ ہوئی۔ شراب سے تنگ آکر بہت سی خواتین طلاق لے رہی تھیں، شراب پر پابندی سے یہ سلسلہ بھی کم ہوا ہے۔ شراب سے خاندان مسلسل اذیت کا شکار رہتے تھے، شراب پی کر دوستوں کے ساتھ لڑائی کی جاتی یا راہگیروں سے دست و گریبان ہو جاتے ہیں، جس سے مار پیٹ کا بازار گرم ہو جاتا تھا، شراب پر پابندی سے اس کا بھی خاتمہ ہوا۔ اسی طرح کے سینکڑوں اور فائدے ہیں۔

شراب اس معاشرے میں زیادہ ہوتی ہے، جس میں انفرادیت زیادہ ہو، لوگ خود سے بیزار ہوں اور ہوش کی بجائے بے ہوشی میں گذرے لمحات کو پرسکون محسوس کرتے ہوں۔ یہ ایسے معاشرے کا تصور ہے، جس کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام پر ہو، جس میں تمام انسانی اقدار کی کوئی حیثیت نہیں۔ بڑی کمپنیوں کا کام محض لوگوں کو اپنی پروڈکٹس سیل کرنا ہو، اس کے نیتجے میں کوئی خاندان تباہ ہو یا کوئی دنیا سے ہی چلا جائے، اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شراب نوشی بری لت ہے، انسان کے اس میں پڑنے کی کئی وجوہات ہیں۔ اصل وجہ انسان میں تربیت کا فقدان یا زندگی میں پیش آنے والی مشکلات ہیں، جس کی وجہ سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ شراب میں اس کے مسئلے کا حل ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ شراب میں اس کے مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ وہ ایک اور مسئلے کا شکار ہو رہا ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ اللہ نے اس کائنات میں ہزاروں قسم کے مشروبات پیدا کیے ہیں اور شراب سمیت چند کے پینے سے منع کیا، دیگر تمام کی اجازت دی ہے، تعجب اس انسان پر جو اپنے خالق کے حکم پر اس ایک مشروب کو ترک نہیں کرتا۔ اکثر مذہب بیزار لوگ شراب حرام ہے سنتے ہی الرٹ ہو جاتے ہیں اور سوالات کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ اگر حرام سے آپ کو چڑھ ہے تو کوئی بات نہیں، شراب انسان کے لئے ممنوع ہے جناب۔

یہ بھی دیکھیں

ایران میں انقلاب کے بعد علمی و تحقیقی پیشرفت

(تحریر: سید اسد عباس) انقلاب اسلامی ایران کو آئے ہوئے تقریباً 43 برس ہوچکے ہیں۔ …