(افشاں ملک)
پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو اگرچہ شروع میں مشکلات کا سامنا رہا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ حکومت خارجہ پالیسی طے کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے ،یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکومت مسائل سے غافل نہیں ہے اور وزیراعظم بڑے تدبر سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ،وزیر اعظم کی حکمت عملی اس حوالے سے بھی خوش آئند ہے کہ انہوں نے داخلی اور خارجی مسائل کو الگ الگ رکھا ہے اور وہ اندرونی وبیرونی دباؤمیں آئے بغیر دھیرے دھیرے مسائل کو حل کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ اس کا داخلی اور خارجی استحکام ہے، ہمیں بیک وقت داخلی اور خارجی محاذ پر جو بڑے مسائل یا چیلنج درپیش ہیں وہ ہمیںکمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ آج کی دنیا میں خارجہ پالیسی مرتب کرتے وقت تین بنیادی اصول وضع کیے جاتے ہیں جس میں اول داخلی پالیسی، دوم علاقائی ممالک یا ہمسائے کے ساتھ بہتر تعلقات، اور سوم عالمی خارجہ پالیسی کے خدوخال شامل ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی ترتیب دیتے وقت زیادہ سے زیادہ دوست بنانا اورخطے کے دیگر ممالک کو اپنے ساتھ جوڑنا اہم ہوتا ہے۔
خارجہ پالیسی میں دوستی کے ساتھ ساتھ مفادات اہم ہوتے ہیں کہ کس طرح سے ممالک مل کر ایک دوسرے کے مفادات کو تقویت دیتے ہیں۔ ایک مسئلہ بداعتمادی، شکوک وشبہات اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست کا ہوتا ہے جو عمومی طور پر خارجہ محاذ پر مزید بدگمانیاں پیدا کرکے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ان ہی اہم معاملات کو مدنظر رکھ کر ریاستی یا حکومتی نظام اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے خدوخال ترتیب دیتا ہے اور بوقت ضرورت اس میں حالات کے مطابق تبدیلیوں کو بنیاد بناکر مزید نئی اصلاحات پیدا کرتا ہے، کیونکہ خارجہ پالیسی کبھی بھی جامد نہیں ہوتی اور یہ حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ لیکن مختلف حالات میں خارجہ پالیسی کی تبدیلی میں جو تدبر، فہم و فراست اور مؤثر حکمت عملی درکار ہوتی ہے اگر اس کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو پھر ایک سطح پر ہم خود بھی اپنی کمزوریوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم کے اس اقدام کی تائید کئے بغیر چارہ نہیں کہ انہوں نے پاکستان کے مسائل مغرب کے سامنے رکھنے کے بجائے دوست ممالک سے رجوع کیا ہے۔وزیر اعظم کی سفارت کاری کام آئی ہے اور دوست ممالک کی طرف سے نہ صرف یہ کہ مثبت اشارے ملے بلکہ سعودی عرب ،یو اے ای اور چین کی طر ف سے پاکستان کے ساتھ عملی طورپر مالی تعاون کیا گیا ہے ،دیگر ممالک کی نسبت سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ بھر پور تعاون کیا ہے جو دوطرفہ تعلقات کی پائیداری کی علامت ہے ۔ آئندہ کچھ دنوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد متوقع ہے۔ اس بارے میں وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کئی ایک معاہدوں پر دستخط ہوں گے جن کی مالیت10 ارب ڈالر ہوگی۔ ایسے ہی معاہدے متحدہ عرب امارات، چین اور ملائیشیا سے بھی ہوں گے۔ شہزادہ محمد بن سلمان رواں ماہ پاکستان آئیں گے۔ان کی آمد کی تفصیل اجلاس میں طے کی گئی جو وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں اسلام آباد میں ہوا۔ سعودی عرب نے آئل ریفائنری پاکستان میں قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ یو اے ای اور ملائیشیا سے معاہدے کی تفصیلات اگلے مہینے تک تیار ہوجائیں گی۔ بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین ہارون شریف کے مطابق سعودی عرب4 اہم منصوبوں آئل ریفائنری، پٹرول کیمیکل ، توانائی اور کان کنی میں دلچسپی رکھتا ہے۔
سعودی عرب اور دوسرے ممالک کی سرمایہ کاری سے ملکی معیشت کو بہت فائدہ ہوگا۔ یہ 10 ارب ڈالر، ان3 ارب کے علاوہ ہوں گے جو سعودی مملکت نے پاکستانی مالی خسارے کو پورا کرنے کے لئے پہلے ہی ہمارے خزانے میں جمع کرادیئے ہیں، 65 فیصد منصوبے پاکستان کے معاشی دارالخلافہ میں دیگر 35 فیصد لاہور میں لگیں گے۔ پاکستانی حکومت نے یہ بات پہلے ہی صاف کردی ہے کہ بیرونی ممالک سے آنے والی تمام سرمایہ کاری پاکستانی کمپنیوں کی شراکت سے ہو گی تاکہ ہمارے بزنس مین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ صرف آئل ریفائنری سعودی عرب کی آرامکو اپنے طور پر لگائے گی۔ توانائی کے شعبے میں سعودی عرب کی کمپنی سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں منصوبے لگائے گی۔ اس نے اس قسم کے منصوبے تیونس، عرب امارات اور اردن میں لگا رکھے ہیں۔ متحدہ عرب امارات تعمیرات اور دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتاہے۔ اس قسم کی سرمایہ کاری جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔ حکومت نے بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان لانے کیلئے ٹیکسوں میں پہلے ہی47 فیصد سے کمی کر کے21 فیصد کردی ہے۔وزیراعظم بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اس کے بعد حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں امن وامان کے قیام کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑے کیونکہ اگر بیرونی سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم نہ کیا گیا اور خاکم بدہن دہشتگردی کے اکا دکا واقعات پیش آگئے تو ساری محنت اکارت جائے گی اور بیسیوں برسوں کے بعد بھی ہم وہیں پہ کھڑے ہوں گے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا۔بشکریہ مشرق نیوز