جمعہ , 19 اپریل 2024

آل سعود کا ہچکولے کھاتا اقتدار بچ پائے گا۔۔؟؟؟

(تحریر: ٹی ایچ شہزاد)

کہتے ہیں ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، ایسا ہی کچھ سعودی عرب کیساتھ ہونے جا رہا ہے۔ ایک عرصے سے آل سعود سعودی عرب کے اقتدار پر قابض چلے آرہے ہیں، مگر اَب لگتا ہے کہ آل سعود کے مظالم کا سورج غروب ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ایک نہتی سعودی لڑکی نے آل سعود کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر ڈالا ہے۔ سعودی حکمرانوں نے جہاں اپنے ظلم سے سعودی عرب میں کسی مزاحمتی تحریک کو پنپنے کا موقع نہیں دیا، وہاں سعودی عرب کے "خود ساختہ اسلام” سے باغی سعودی لڑکیاں اپنے طور پر آلِ سعود کیخلاف برسر پیکار ہیں۔ اسی گھٹن سے بچنے کیلئے سعودی عرب میں نام نہاد اسلامی قوانین میں ترمیم کی گئی ہے اور برسوں سے نافذ سخت ترین قوانین میں نرمی کرکے "نیا سعودی عرب” دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے، جس میں سینماز بھی ہیں اور رقص و سرود کی پارٹیاں بھی۔ جس میں خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی بھی اجازت ہے اور کھیل کے میدانوں میں جا کر میچز وغیرہ دیکھنے کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ اس ترمیمی سعودی عرب میں بھی ابھی تک گھٹن کا احساس ختم نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی خواتین اس گھٹن سے جب باہر آتی ہیں تو دل کھول کر اس نظام پر چار حرف بھیجتی ہیں اور ردعمل میں غیر اسلامی حرکات کی مرتکب ہو کر خود کو تسکین پہنچاتی ہیں۔ یہی کچھ سعودی لڑکی رہف القنون نے کیا، جو اس وقت کینیڈا میں پناہ لے چکی ہے۔

ذرائع ابلاغ میں شائع ہونیوالی خبروں کے مطابق 18 سالہ سعودی لڑکی رہف القنون براستہ بنکاک آسٹریلیا جانا چاہتی تھی، ‌لیکن اُسے کہا گیا کہ پہلے وہ واپس کویت جائے، جہاں اس کا خاندان اس کا انتظار کر رہا تھا۔ رہف القنون نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور ایئرپورٹ کے ہوٹل کے ایک کمرے میں خود کو بند کر لیا، جہاں اس نے سوشل میڈیا کی مدد سے بین الاقوامی توجہ حاصل کر لی۔ اس نہتی لڑکی کی مدد کیلئے اقوام متحدہ سمیت دیگر انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالے ادارے حرکت میں آئے اور انہی اداروں کی کوششوں سے اس وقت رہف القنون کینیڈا پہنچ چکی ہے۔ رہف نے میڈیا کو بتایا کہ وہ سعودی اسلام ترک کرچکی ہے اور اُسے اب اس بات کا خوف ہے کہ اگر اُسے زبردستی سعودی عرب واپس بھیجا گیا تو اس کا خاندان اسے قتل کر دے گا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں مرتد کی سزا موت ہے۔

اس موقع پر کینیڈا کی وزیر خارجہ کرسٹیا فریلینڈ نے سعودی لڑکی کو "ایک نئی بہادر کینیڈین” کے طور پر متعارف کروایا۔ کرسٹینا کا کہنا تھا کہ رہف القنون ایک لمبے سفر اور آزمائش کے بعد تھکن سے چُور ہیں اور میڈیا سے مزید بات چیت نہیں کرسکتی۔ کینیڈین وزیر خارجہ نے جب سعودی لڑکی کو میڈیا کے سامنے پیش کیا تو اس نے شارٹ پہن رکھا تھا، جس سے اس کی پوری ٹانگیں برہنہ تھی۔ رہف کے اس لباس میں آنے کا مقصد شائد یہی تھا کہ وہ سعودی نظام کے منہ پر طمانچہ مارنا چاہتی تھی۔ جس میں وہ کامیاب رہی، جبکہ اس کی جہاز کے اندر کی تصاویر بھی مغربی میڈیا نے شائع کی ہیں، جن میں وہ ہاتھ میں شراب کا گلاس لئے بیٹھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں "سعودی قید” سے نکلتے ہی رہف القنون ہر قاعدے سے آزاد ہوگئی۔ رہف جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول سے کینیڈا پہنچی۔

رہف نے سعودی ماحول سے فرار کے حوالے سے مغربی میڈیا کو بتایا کہ اگر وہ واپس گئی تو ان کا خاندان اُسے قتل کر دے گا۔ اپنے فرار ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے رہف کا کہنا تھا کہ وہ سعودی عرب میں نہ تو تعلیم حاصل کرسکتی تھی اور نہ ہی اُسے ملازمت کرنے کی اجازت تھی۔ اس لئے ایسے ماحول سے آزادی چاہتی تھی اور اسی آزادی کیلئے وہ یہاں تک پہنچی ہے۔ اب میں پڑھنا بھی چاہتی ہوں اور کام بھی کرنا چاہتی ہوں۔ کینیڈا کے ایئر پورٹ پر میڈیا کے سامنے جب اُسے پیش کیا گیا تو اسے بات چیت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب بھی شراب کے نشے میں ہے۔ کینیڈین وزیر خارجہ کی گفتگو پر وہ صرف اثبات میں سر ہلاتی رہی۔ جب صحافیوں نے اُس سے سوالات کرنا چاہے تو کینیڈین وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ تھکی ہوئی ہیں، آج بات نہیں کرسکتیں، وہ بعد میں میڈیا کے سامنے آئیں گے اور کھل کر ساری تفصیلات بتائیں گے۔

اس سے قبل رہف نے بتایا تھا کہ اسے خاندان والے جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ اس نے بتایا کہ 6 ماہ قبل اس نے جب اپنے بال کاٹے تو اس پر گھر والوں نے اُسے کمرے میں قید کر دیا تھا۔ اب رہف کینیڈا پہنچ چکی ہے۔ کینیڈا اور سعودی عرب کے تعلقات پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہیں۔ کینیڈا کے پاس اس لڑکی کا پہنچ جانا جہاں کینیڈا کیلئے مفید ثابت ہوسکتا ہے، وہیں سعودی عرب کے قوانین اور مظالم بھی بے نقاب ہوں گے۔ سعودی عرب اور کینیڈا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی آئی ہی انسانی حقوق کی ورکرز خواتین کی رہائی کے مطالبے سے ہی تھی۔ کینیڈا نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالی گرفتار سعودی خواتین کو رہا کرے۔ ریاض حکومت نے کینیڈا کے اس مطالبے کو سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔ ریاض نے اس مطالبے کی پاداش میں کینیڈا سفیر کو بھی بے دخل کر دیا اور تجارتی و سفارتی تعلقات بھی ختم کر دیئے تھے۔

سعودی شاہ سلمان شائد بھول چکے ہیں کہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ اب وہ زمانے گئے، جب یہ اپنی من مرضی سے حق کیلئے آواز اٹھانے والوں کے سر قلم کر دیا کرتے تھے۔ سعودی عرب کے اندر سے اب آوازوں کا اٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی عوام میں بیداری آرہی ہے۔ شاہ سلمان نے 41 ممالک کا عسکری اتحاد بنوایا تو وہ بھی صرف اپنے اقتدار کے دفاع کیلئے۔ غیر مصدقہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اب وہ اتحاد بھی بکھرنے کے قریب ہے، اس عسکری اتحاد کی گاڑی بھی اب مزید نہیں چل سکے گی۔ سعودی عرب نے یمن میں نہتے عوام کیساتھ جو سلوک کیا ہے، یقیناً ہزاروں بے گناہوں کا خون آل سعود کے سر ہے۔ یہ یمنیوں کے خون کی ہی تاثیر ہے کہ آج آل سعود کا اقتدار ہچکولے کھا رہا ہے۔

خون پھر خون ہے، بہتا ہے تو جم جاتا ہے
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے مٹ جاتا ہے

اب سعودی ظلم کے مٹنے کا وقت آگیا ہے۔ سعودی عرب سے نکلنے والی یہ پہلی لڑکی نہیں، اس سے پہلے بھی بہت سے خواتین آل سعود کے مظالم سے تنگ آکر ملک چھوڑ چکی ہیں اور یہ سلسلہ یہاں تھمے گا نہیں بلکہ مزید خواتین بھی آل سعود کے اقتدار کو چیلنج کریں گی اور یہ سلسلہ آل سعود کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوگا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …