جمعرات , 18 اپریل 2024

احتساب گاڑی اور ریورس گیئر

اعظم عمران خان کی صدارت میں منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامے کے بغیر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ کے نام ای سی ایل سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ۔اجلاس سے پہلے ان دونوں شخصیات کے نام ای سی ایل سے نکالے جانے کا فیصلہ متوقع تھا کیونکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار ایک عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس میں بلاول بھٹو کو معصوم اور مراد علی شاہ کو منتخب وزیر اعلیٰ کہہ کر ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر تنقید کرچکے تھے ۔چیف جسٹس نے ان ریمارکس کے دوران ہی کہا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کا کیا قصور ہے وہ تو اپنی ماں کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ تحقیقات اور حتمی فیصلے کے لئے نیب کو بھجوادی تھی۔ مسلم لیگ ن احتساب کے معاملے میں عدالتی چکروں میں پڑ چکی اور اب احتساب گاڑی پیپلزپارٹی کی طرف بڑھ رہی ہے ۔

پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف مواد اس قدر زیادہ ہے کہ عدالتی ریمارکس اور معصومیت کے وقتی سرٹیفکیٹ حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتے ۔اومنی گروپ ایک پنڈورہ باکس ہے جس سے جعلی اکائونٹس کی صورت میں روزانہ ایک ہوش ربا کہانی کی بلا باہر نکل رہی ہے ۔ان بلائوںکو قابو کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ منظر یوں بدل جائے کہ احتساب کرنے والوں کو لینے کے دینے پڑ جائیںیا پھر منظر کچھ اس انداز سے بدل جائے کہ مفاہمت کے زمزمے چہار سو بلند ہوں اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں۔ماضی میں آصف زرداری منظر بدلنے کے انتظار میں برسوں جیلوں اور جلاوطنی میں گزارچکے ہیں اور منظر بدلتے ہی کھیل مکمل بدلتا رہا ہے ۔اس بار بھی آصف زرداری گرینڈ الائنس کے نام سے کوئی ایسا ڈول ڈالنا چاہتے ہیں کہ حکومت دفاعی پوزیشن میں چلی جائے اور ملک کا منظرنامہ ہی بدل کر رہ جائے ۔نہ کوئی کیس رہے اور نہ کوئی فائل باقی رہے ۔ اتحادی سیاست کے احیا کی کوششوں کا مقصد احتساب کے تارعنکبوت کو توڑنا ہے ۔پیپلزپارٹی کی پہلی ترجیح دھمکی سے کام چلانا ہے ۔

اتحادی سیاست کا مطلب خالی فوٹو سیشن اور چائے کافی کے دور چلنا نہیں ہوتا بلکہ اس سفر میں ایک مرحلے پر ڈرائنگ روم سے نکل کر سڑکوں اور کنٹینروں پر چڑھنا بھی پڑتا ہے اور پیپلزپارٹی میںاب اس کی سکت باقی نہیں رہی ۔آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کی سیاست کا کانٹا ہی نہیں کلچر بھی بدل دیا ہے۔ جیل جانے اور ماریں کھانے والے کارکن اب اس کلچر میں نایاب ہیں۔بدلے ہوئے اس کلچر میںپنجاب میں تو پارٹی کی بنیادیں ہی ہل کر رہ گئی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی سیاست کی بساط پر ایشوز بھی بدل گئے ہیں۔اب نہ نواب زادہ نصراللہ خان ہیں نہ جنرل ضیاء الحق ۔اب نہ بحالی ِ جمہوریت کا نعرہ ہے نہ آمریت سے چھٹکارے کا مقصد۔اب سیاسی قیادت کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے اور یہ محض الزامات نہیں۔اسی لئے آصف زرداری اس نئی صورت حال سے نمٹنے کے لئے پرانے نعروں اور تدابیر کا سہارا لے رہے ہیں۔وہ کرپشن کے الزامات کو اٹھارہویں ترمیم کی سز ا،صدارتی نظام اور وحدانی طرز حکومت یعنی ون یونٹ کی باتوں کی دھند میں لپیٹنے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں ۔ ملک میں جو احتساب کی باتیں عشروں سے جاری ہیں چند دن سے سابق صدر مرحوم فاروق لغاری کا وڈیو کلپ میڈیا میں گردش کر رہا ہے جس میں وہ منی لانڈرنگ کے طریقوں اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی جائیدادوں،پھیلتے ہوئے کاروبار کی واضح طور پر نشاندہی کر رہے ہیں۔فاروق لغاری مسٹر کلین کہلاتے تھے اور ان کی سیاست اور صدارت ان کی اسی سوچ کی بھینٹ چڑھے تھے ۔انہوںنے کرپشن کے الزامات میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا تھا اور اس کے بعد مسلم لیگ ن برسر اقتدارآئی تھی مگر مسلم لیگ ن کی حکومت کے ساتھ بھی وہ تادیر نہ چل سکے تھے اور ایک روز خاموشی سے استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے تھے ۔نوے کی پوری دہائی احتساب گاڑی کے آگے بڑھنے ،لڑھک جانے اور ریورس گیئر لگ جانے کی کہانی سے بھرپور ہے ۔ ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ ملک میں گزشتہ چند دہائیوںمیںبدعنوانی ہوئی ہے۔کوئی بدعنوانی کی کہانیوں کو الف لیلوی داستان کہتا ہے تو حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے ۔

ماضی میں ایساہوتا رہا کہ منظر بدلتے ہی احتساب کی نوعیت اور معیار بدل جا تا رہا ۔ہر دور کے حکمران نے آدھا سچ بولااور ادھورا احتساب کرنے کی کوشش کی ۔انہوںنے اپنے بارے میں غلط بیانی اور فریق مخالف کے بارے میں سچ بولا۔مختلف ادوار اور مختلف اوقات میں بولا جانے والا یہی سچ اب ریفرنسز اور مقدمات کی صورت میں ان کا پیچھا کر رہا ہے ۔اس بار نہ تو ادھورے احتساب کی گنجائش ہے اور نہ آدھا سچ بولنے کی رسم وریت سے کام چلے گا ۔اس بار حکمرانوں کو پورا سچ اور مکمل احتساب کرنا ہوگا ۔احتساب گاڑی چل پڑی ہے اس میں کوئی ریورس گیئر نہیں ۔اس احتساب گاڑی کو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دروازوں سے گزر کر پی ٹی آئی ،عدلیہ بیوروکریسی اور فوج کے سابق جرنیلوں کے دروازوں پر جاکر دستک دینا اور حال احوال معلوم کرنا ہوگا۔مرضی اور پسند وناپسند کے فرسودہ پیمانوں اور معیارات سے کام چلانے کی کوشش احتساب کے عمل کو مشکوک بنا دے گی ۔احتساب گاڑی کا رکنانہیںبلکہ اس کی رفتار میں اضافہ مسئلے کا حل ہے۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …