بدھ , 24 اپریل 2024

چیخنے چلانے سے کچھ نہیں بدلنے والا

امریکی وزیر خارجہ پمپیو اور قومی سلامتی کے مشیرجون بولٹن کی مغربی ایشیا یا مشرق وسطیٰ میں اچھل کود اور چیخنے چلانے سے اب زمینی حقائق تو بدلنے سے رہے ۔
اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کئی ہزار کلومیٹر سفر اور ہزاروں لیڑ فیول خرچ کرنے اور ایک دارالحکومت سے دوسرے دارالحکومت تک زبانی کلامی فائر کرنے سے دنیا یہ باور کرے گی کہ مغربی ایشیا یا مشرق وسطیٰ پر اب بھی امریکی سکہ چلتا ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے ۔
ان سمیت خطے میں ان کے اتحادی پوری طرح جان چکے ہیں کہ بساط ان کے نیچے سے لپیٹی جاچکی ہے
لیکن اس کے باوجود وہ امریکی وزیر خارجہ کا ایسے انتظار کررہے تھے کہ جسے وہ ان کے لئے کوئی معجزہ کرنے والا ہے ۔
چند نکات کی جانب توجہ ضروری ہے
پہلا:امریکی وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کا تیز رفتار دورہ در حقیقت ٹرمپ کی جانب سے شام سے انخلا کے اعلان کے بعد ان کے اتحادیوں میں پیداہونے والی صورتحال اور گھبراہٹ کو کم کرنے کی کوشش ہے ۔
ایسی صورتحال پہلے بھی کئی بار پیدا ہوئی ہے جیسے شام کے ایشو کو لیکر اور ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بعد ۔۔
دوسرا:اسرائیل کی یہ خواہش اب تک پائے تکمیل کو نہ پہنچ سکی کہ ایران کیخلاف ایک بین الاقوامی اور علاقائی ایسا اتحاد قائم کرسکے جو اس کی جگہ ایران کے ساتھ براہ راست لڑے یہی صورتحال سعودی عرب کی بادشاہت کا بھی ہے ۔
اس قسم کے اتحاد گذشتہ پانچ سالوں میں ایک درجن سے زائد میڈیا یا کاغذوں میں بنے اور پھر خود ہی بکھر گئے ہیں جیسے معتدل سنی و اسرائیلی اتحاد ،عربی نیٹو ،دہشتگردی کیخلاف 39ملکی مشترکہ فوج ۔۔۔
ہوسکتا ہے کہ ایسے اتحاد عربوں کے تیل کی آمدنی بٹورنے اور اسلحہ بیچنے کے لئے تو بن سکتے ہیں لیکن کسی کے لئے کرایے کے ٹٹو بننے کے لئے ممکن نہیں ۔
یہ نکتہ واضح رہے کہ ایران پر براہ راست حملے کے نام پر بننے والے یہ اتحاد ایک دہائی سے زیادہ تاریخ رکھتے ہیں اور امریکی اسی بہانے سے مسلسل عربوں کو لوٹتے آرہے ہیں ۔
تیسرا:آج سے پانچ سال پہلے تک ایران کا جتنا سیاسی و عسکری اور اسٹراٹیجکل جغرافیہ،اسٹریٹجک گہرائی تھی اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اب ایران پر حملے کا مطلب کم ازکم مشرق وسطیٰ وسطی سمیت دنیا کے کئی ممالک کوبراہ راست اس جنگ میں شامل کرناہے اور ہمارا نہیں خیال کہ امریکہ ایک ایسی جنگ چاہتا ہے کہ جس کانتیجہ عالمی جنگ کی شکل میں برآمد ہو ۔
نتیجہ
یہ جو کہا جارہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لئے اب امریکہ کے پاس کسی بھی قسم کی کوئی اسٹراٹیجی نہیں بچی ہے کوئی پلان باقی نہیں رہا ہے یہ ایک کھلی حقیقت ہے
اور اس حقیقت کو امریکی بیانات پوری طرح ظاہر کرتے ہیں ٹرمپ کچھ کہتا ہے دیگر ذمہ دارکچھ اور کہتے ہیں
شام سے افواج کے انخلا کو لیکر ہی دیکھیں کہ کبھی کہا جاتا ہے مکمل انخلا ہوگا ،کبھی جزوی ہوگا تو کبھی ٹیکٹک کے ساتھ ہوگا تو کبھی ہشیار انخلا ہوگا ۔۔۔کیونکہ جب انسان کے پاس کسی قسم کی کوئی حکمت عملی موجود نہ ہو تو پھر وہ ایسی پوزیشن میں نہیں ہو تا کہ کوئی واضح شفاف اور مکمل بات کرسکے ۔
یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے اعلانات کے ساتھ ہی امریکی نصف درجن کے قریب ذمہ داروں کے استعفے سامنے آئے ۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میںبحران پیداکرنے والوں میں سے نہ کہ حل کرنے والوں سے لہٰذا وہ کیسے ان بحرانوں کو را م کرسکتا ہے جو خود اس بحران کا حصہ اور سبب ہو ۔
مائیک پمپیو کا حالیہ دورہ قطر اور دیگر خلیجی ممالک کے درمیان موجود بحران اور وارسوا کانفرنس پر اصل فوکس کئے ہوئے تھا ۔
پولینڈ کے دارالحکومت وارسوا میں ہونے والی اس کانفرنس کے حوالے سے بھی چند نکات کی جانب توجہ ضروری ہے
الف:یہ اچانک اعلان شدہ ایک کانفرنس ہے کہ جس کی بازگشت ابھی امریکی وزیر خارجہ کے دورے سے ہی سنائی دینے لگی ہے ۔
ب:اسرائیل اور پولینڈ کے درمیان ڈپلومیٹک مسائل موجود ہیں جو ہولوکاسٹ میں پولینڈ کی ممکنہ شرکت اور اس کے بارے میں عدم اعتراف یا معافی جیسے مسائل ہیں ۔
یقیناً اس کے باوجود نتن یا ہو شرکت کرے گا کیونکہ ان کے پاس اس وقت تین عہدے ہیں وزیر اعظم ،وزیر خارجہ اور وزیر دفاع اور اندرونی طور پر انتخابات نزدیک ہیں اور وہ کرائسس کا بھی شکار ہے ۔
ب:یورپ پہلے سے ٹرمپ سے سخت نالاں ہے کیونکہ ایران پر پابندیوں کے سبب یورپی کمپنیوں کو بھاری نقصان ہوا ہے جو اربوں ڈالر کے حسا ب سے ہے
ج:پولینڈ کو انتخاب کرنے کی ایک اور وجہ وہ امریکی پالیسی ہے جو یورپ کو لیکر ہے کہ جس میں وہ بڑھے یورپ کی جگہ یورپی ان نئے اتحادیوں پر زیادہ فوکس کرنا چاہتے جو یورپی یونین میں بعد میں شامل ہوئے ہیں کہ جن میں سے ایک پولینڈ ہے
د:پولینڈ میں ٹرمپ پسند پالیسیوں کی پذیرائی اور امریکی میگا پروجیکٹس
ایک جانب جہاں ایران کےخلاف اور مشرق وسطیٰ کے امن و امان کے نام پر یہ کانفرنس ہونے جارہی ہے تو دوسری جانب میڈیا لیکس بتاتی ہیں کہ خلیجی ممالک ترکی کو اپنے لئے اصل خطرہ سمجھتے ہیں
لیکن اس کے باوجود مغربی ایشیا یا مشرق وسطیٰ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہاں جنگ اور امن دوستی اور دشمن کی ہوا جلدی اور تیزی کے ساتھ پوزیشن بدلتی رہتی ہے
لہٰذا ہم یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے ہیں کب کہاں کیا ہوسکتا ہے،ا گرچہ زمینی حقائق کسی بھی قسم کی جنگ یا تصادم کے بر خلاف ہیں لیکن
ٹرمپ اندونی طور پر بری طرح دباؤ کا شکار ہے ،میلر کی تحقیقات سے لیکر روس کے لئے کام کرنے کے الزامات تک ۔۔۔
لہٰذا وہ ایک فرضی بحران پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں جس سے فوکس اور توجہ ہٹ جائے
لیکن اگر اس قسم کی کوئی بھی کوشش ہوتی ہے تو یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے بارود کے ڈھیر پر کوئی پاگل یا کوئی بچہ شرارت سے تیلی لگائے کہ جس کا نتیجہ پورے گھروالوں کو ادا کرنا پڑے گا ۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …