جمعہ , 19 اپریل 2024

ایک مرتبہ پھر افغانستان کو بچانا ہوگا

(مشرف زیدی) 

امریکہ اور طالبان کے مابین حال ہی میں شروع ہونے والی مصالحت کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے اور یقیناً یہ اس تنازعہ کا واحد حل ہے۔ پچھلے اٹھارہ برس سے افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے میں ہی سب کی بھلائی ہے۔ افغانستان میں کشیدگی کے حل سے افغانستان، پاکستان، امریکہ، طالبان اور دیگر علاقائی اور عالمی طاقتوں کو سکھ کا سانس نصیب ہوگا جن کی نظریں پہلے ہی افغان حل سے کئی طرح کی اُمیدیں وابستہ کئے بیٹھی ہیں۔

افغانستان کے مسئلے پر یہ پانچوں قوتیں پچھلے چالیس برس سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور ہمیں ان سب کی یا کم ازکم اپنی نیک نیتی پر بھی کوئی شک نہیں البتہ یہ تمام فریقین ان برسوں میں مسئلے کے حل کیلئے ذرہ برابر بھی دانشمندی اور اہلیت کا ثبوت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ افغان مسئلے میں سب سے زیادہ قابل افسوس کردار خود افغان حکومتوں کا رہا ہے آج بھی افغانستان کے نئے وزیردفاع اسداللہ خالد پر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر عقوبت خانے قائم رکھنے، نجی جیلیں چلانے اور ان میں قید لوگوں پر وحشیانہ تشدد کے الزامات ہیں۔ ان پر اپنے گورنری کے دور میں جنسی ہراسگی اور جنسی تشدد کے بھی الزامات رہے ہیں اور ان کا نام منشیات سمگلنگ میں بھی ملوث رہا ہے۔ طالبان کے بڑے مخالف کے طور پر پہچان رکھنے والے اسداللہ خالد جو ماضی میں سوویت یونین کے حامی ڈاکٹر نجیب اللہ کو تخت سے گرانے اور کابل کو توڑنے کی سازشوں میں ملوث رہے ہیں، اب طالبان دشمنی میں انہی ڈاکٹر نجیب کے گن گانے لگے ہیں۔ بطور وزیردفاع، اپنے پختون طالبان جنگجوؤں کو طالبان مخالف جذبات میں نشونما دی گئی افغان نیشنل آرمی میں ضم کرنے کی ذمہ داری بھی اسداللہ خالد پر ہی عائد ہوگی۔

البتہ اپنی تمام تر غلطیوں کے باوجود، حامدکرزئی اور اشرف غنی جیسی نئی افغان قیادت کو بہرحال یہ سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے افغانستان کو ایک ماڈرن سٹیٹ بنانے کیلئے کچھ مؤثر اور عملی اقدامات ضرور اُٹھائے ہیں۔ طالبان اس مسئلے کے دوسرے بڑے اور اہم فریق ہیں۔ آج سے ربع صدی قبل امن واستحکام کے نام پر بنائے جانے والے طالبان نے اپنے ہی وطن اور ثقافت کو ملیامیٹ کر دیا۔ اگر آپ ان طالبان کی کارکردگی ماپنا چاہیں تو یہ دیکھیں کہ ملاعمر کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے افغانستان کیسی ترقی معکوس کا شکار ہوا ہے۔ طالبان حکومت نے القاعدہ کیلئے ایک نرسری کا کام کیا اور اسی کے نام لیواؤں نے مسلم دنیا کے نوجوانوں کو شدت پسندی پر اُکسا کر چلتے پھرتے میزائل بننے پر راغب کیا۔ آج ہم داعش کی جانب سے برپا جو تباہ کاریاں دیکھتے ہیں ان کے بھی تانے بانے طالبان دور سے ملتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے افغانستان کو جو نقصان پہنچا اس سے سب سے زیادہ متاثر ان کے اپنے بھائی، بہنیں اور بیٹیاں ہوئی ہیں۔

افغانستان کا شمار لڑکیوں کی پیدائش کے حوالے سے دنیا کے بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔ طالبان اپنی حکومت کے دوران افغانستان میں جنگ، غربت اور مفلسی ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے اور اس کے باوجود وہ آج افغان سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ افغان مسئلے کا تیسرا اہم فریق امریکہ ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی جانب سے مسلسل اور غیرضروری مداخلت تاریخ کا حصہ ہے۔ اگر ہم طالبان کو جنگ سے تحفظ یا امن واستحکام کیلئے ایک غلط ذریعہ سمجھتے ہیں تو یقین جانیں امریکہ کی طرف سے بنائے گئے مجاہدین طالبان سے بھی جابر تھے۔ ان مجاہدین کو بنانے اور پالنے والا امریکہ اب اپنے ہزاروں فوجی جوانوں کو اس پہاڑوں کی وادی میں موت کے گھاٹ اترنے کیلئے بھیج کر بھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پایا۔

1980ء میں سوویت یونین کو توڑنے اوراس پر فتح پاکر اس وقت کے امریکی صدر انلڈ ریگن بہرحال ایک کامیابی کے دعویدار تھے، البتہ ان کے بعد آنے والے جارج بش اور باراک اوباما اس سب سے کیا کوئی بڑی کامیابی حاصل کر پائے، ہرگز نہیں۔ افغانستان میں امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے البتہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کم ازکم اس بات پر قائل ہیں کہ اب ایک محفوظ انخلاء ہی امریکہ کی اہم ضرورت ہے اور یہ خاصی مضحکہ خیز بات ہے کہ اس انخلاء کیلئے امریکہ کا بڑی حد تک دار ومدار پاکستان پر ہے جبکہ اس سے پہلے تقریباً ڈیڑھ دہائی تک امریکہ کو پاکستان کے کردار اور افغانستان میں اس کے مفادات کے بارے خدشات ہی رہے ہیں۔ افغان مسئلے کا چوتھا اہم فریق بدقسمتی سے پاکستان ہے۔

1979ء میں اس نے اپنے وسیع تر سکیورٹی مفادات کیلئے اپنے لوگوں کے ملی و مذہبی جذبات کو استعمال کیا۔ پاکستان پچھلی چار دہائیوں سے افغانستان کی نسل درنسل امداد اور پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کرتے اب علاقائی اور عالمی سطح پر قدرے کمزور ہو چکا ہے۔ پاکستان کو اپنے افغان اور کشمیری بھائیوں کی امداد کے باوجود وہ صلہ نہیں مل پایا جس کا وہ حقدار ہے۔ اس مسئلے کا پانچواں اور آخری فریق وہ ممالک ہیں جنہیں افغانستان میں عدم استحکام سے شاید براہِ راست تو کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ تاریخی حوالوں سے ناکامی کا طوق ان کے گلے میں بھی لٹک رہا ہے۔ ان میں ترکی، روس،سعودی عرب، قطر اور یورپی یونین کے وہ ممالک بھی شامل ہیں جو اس وقت بریکسٹ کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ امریکی نمائندے برائے افغان امور زلمے خلیل زاد اور طالبان کے مذاکرات سے اُبھرنے والا افغانستان 1988ء کے جنیوا کارڈز سے جنم لینے والے افغانستان سے مماثلت رکھتا ہے۔ البتہ افغانستان، پاکستان، طالبان اور امریکیوں کی نئی نسل کو کچھ پُرانے سبق پھر سے سیکھنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …