جمعہ , 19 اپریل 2024

علیم خان کی گرفتاری۔ ’’انتظارکرو اور دیکھو،،

(نصرت جاوید)

نیب کے ہاتھوں علیم خان کی گرفتاری کی خبر بینڈ باجہ سمیت ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن کر ٹی وی پر چلی تو میرا دل ’’عثمان بزدار، تینوں ربّ دیاں رکھاں‘‘ پکار اُٹھا۔ موصوف کا روحانی ’’کلّہ‘‘ یقیناً بہت مضبوط ہے۔ جب بھی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے انہیں ہٹائے جانے کی اطلاع باخبر ومستند مانے اخبار نویسوں کی وساطت سے پھیلنا شروع ہوتی ہے تو کچھ ایسا ہو جاتا ہے جو ان کی ذات سے توجہ ہٹا دیتا ہے۔ بدھ کے روز بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوا۔

بلھے شاہ کے بتائے ’’شک شبے دا ویلا‘‘میں گھرے کئی پاکستانیوں کا مگر اصرار تھا کہ بدھ کے روز علیم خان کی گرفتاری کا اصل مقصد میڈیا کو ایک چٹ پٹی Diversion فراہم کرنا تھا۔ اس گرفتاری کی بدولت سپریم کورٹ کے معزز بنچ سے آیا ایک بہت ہی اہم فیصلہ Overshadow ہوجائے گا۔

Diversion والی کہانی مگر میں ہضم نہیں کرپایا۔کم از کم 30 برس سے اسلام آباد میں رہتے ہوئے اپنے ریاستی اداروں کی کارگزاریاں دیکھتے ہوئے ربّ کریم سے محض فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ کاش وہ اتنے ہی سمارٹ اور Well Coordinatied ہوتے جتنا ہم تصور کئے بیٹھے ہیں۔

رہی بات ’’فیصلے‘‘ کی تو دست بستہ عرض صرف اتنا کروں گا کہ سعادت حسن منٹو کے ’’نیا قانون‘‘ کو افسانہ کی بجائے شفا دینے والی خوراک کی صورت دوبارہ پڑھ لیجئے اور خود کو ’’منگو کوچوان‘‘ ہونے سے بچائیں۔ یہ افسانہ پڑھنے کے بعد صوفی تبسم کی ’’سوبار چمن مہکا-سوبار بہار آئی‘‘ یوٹیوب سے ڈائون لوڈ کر کے سنیں گے تو فوری افاقہ یقینی ہے۔

نیب کے پاس علیم خان پر ہاتھ ڈالنے کے لئے کچھ نہ کچھ مواد کافی عرصے سے موجود تھا۔اس مواد کی قانونی حیثیت کو جانچنے کی میرے پاس صلاحیت وگنجائش موجود نہیں۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ اہم ہے کہ مبینہ مواد کو ڈرامائی ٹائمنگ کے ساتھ اس وقت کیوں استعمال کیا جاتا ہے جب علیم خان کے پر کسی بلندی پر پرواز کی خاطر پھڑپھڑاتے نظر آتے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے کے باوجود میں علیم خان کو ذاتی طورپر ہرگز نہیں جانتا۔ان کے بارے میں البتہ کہانیاں بہت سنی ہیں۔ کتنی سچی اور کتنی جھوٹی۔یہ طے کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ نیب نے چند سوالات کا جواب طلب کرنے انہیں جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد عین اس وقت بلایا جب عمران خان صاحب پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لئے کوئی مناسب بندہ ڈھونڈ رہے تھے۔

علیم خان کو ا س ضمن میں ایک تگڑا امیدوار تصور کیا جا رہا تھا۔ ان کے سرپرستوں کا اصرار تھا کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ایک لاہوری (شہبازشریف) کے بعد ایک اور لاہوری کو ملے۔ڈیرہ داری اور دھڑے بندی کی صلاحیتوں سے مالامال علیم خان وزیر اعلیٰ بن گئے تو وسطی پنجاب کے شہروں میں رونق لگادیں گے۔ ہائوسنگ سوسائٹیوں ،انڈرپاسز اور اوورہیڈ پلوں پر مشتمل ’’ترقی‘‘ والا ماڈل پوری توانائی کے ساتھ رواں دواں نظر آئے گا۔ شہباز شریف کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔

نیب نے علیم خان کو طلب کرلیا تو ان کے حامی اور سرپرست پریشان ہوگئے۔ان میں سے ایک صاحب نے مجھے بہت سنجیدگی سے ’’گہری سازش‘‘ والی کہانی بھی بتائی۔ اس کہانی پر عمل درآمد کے لئے ’’خرچ ‘‘ہوئی رقم اور خرچہ کرنے والے کا نام بھی لیا گیا۔ میں نے ان کی کہی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی۔ ویسے بھی عثمان بزدار کا انتخاب ہوچکا تھا۔ مجھے بتائی کہانی میں پنجابی والا ’’سواد‘‘ باقی نہیں رہا تھا۔

عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ تعیناتی مگر علیم خان کے مسائل حل نہ کرپائی۔دن تو یا دنہیں رہا۔ چند ہفتے قبل مگر قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھا ہوا تھا تو نیب کی حراست سے سپیکر کے حکم سے وہاں تشریف لائے خواجہ سعد رفیق کو مائیک ملا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ تفتیش کرنے والے ان سے علیم خان کے کاروبار کے بارے میں بھی معلومات جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

پریس گیلری میں بیٹھے صحافیوں کو ان کے دعویٰ سے پیغام یہ ملا کہ شاید “Balance”کے لئے تحریک انصاف کے چند لوگ بھی اب اٹھائے جائیں گے۔
علیم خان شاید ان میں سرفہرست ہوں گے۔ ان کی گرفتاری مگر بدھ کے روز کیوں ہوئی۔ اس سوال کاجواب میرے پاس موجود نہیں۔ سیاسی تماشے دیکھنے کا عادی میرا ذہن مگر یہ سوچنے کو مجبور ہے کہ علیم خان کی گرفتاری تحریک انصاف کو ’’ڈیل اور ڈھیل‘‘ کا شور مچاتے موسم میں بہت فائدہ پہنچائے گی۔

اس کے وزراء سینہ تان کر اس گرفتاری کے بعد نیب کی ’’خودمختاری‘‘ اجاگر کرنا شروع ہوچکے ہیں۔کرپشن کے خلاف تحریک انصاف کی ’’ثابت قدمی‘‘ کے اثبات کے لئے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا جا رہا ہے کہ گرفتار ہوتے ہی علیم خان نے پنجاب کے سینئر وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

مذکورہ استعفیٰ کا تقابل شہباز شریف سے ہوئے ’’سلوک‘‘ کے ساتھ ہو رہا ہے۔نیب نے انہیں بھی حراست میں لے رکھا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت مگر انہیں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کو مجبور ہوئی۔شہباز شریف پر اب ’’اخلاقی دبائو‘‘ بڑھے گا کہ وہ بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔

نیب کی حراست میں ہوتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سے ایوان کے اجلاسوں میں شرکت کی درخواست نہ کریں۔ اپنے مہرے پٹوانے کے بعد فریق مخالف کے شاہ کو مات دینے والی بات ہے۔ سیاست کے ظالم کھیل میں علیم خان کو تحریک انصاف اب ایک پٹے ہوئے مہرے کی صورت ہی استعمال کرے گی۔

علیم خان کے حامی اور چند بہت ہی شکی مزاج مخالفین اگرچہ اصرار کررہے ہیں کہ علیم خان کی بدھ کے روز ہوئی گرفتاری بالآخر انہیں ’’کلین چٹ‘‘ دلوائے گی۔یہ ’’کلین چٹ‘‘ اگرملنا ہے تو اسے تیار ہونے میں لیکن مناسب وقت درکار ہوگا۔ اس دوران اگر کوئی اور شخص عثمان بزدار کی جگہ آگیا تو علیم خان کو مبینہ ’’کلین چٹ‘‘ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ فی الوقت لگی اقتدار کی بساط پر یہ مہرہ پٹ گیا ہے۔ رات گئی بات گئی والا معاملہ۔

“Balance”والی کہانی مگر اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ علیم خان کی گرفتاری شاہد خاقان عباسی کے لئے کیا خبرلاتی ہے۔ اگرچہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ پنجاب میں مناسب ’’ستھرائی‘‘ ہوچکی۔’’صاف وشفاف‘‘ ہوا کا رُخ اب سندھ کی طرف مڑنا چاہیے۔

مجھ ایسے بے خبر لوگوں کے پاس ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کے علاوہ کوئی راہ موجود نہیں۔ یہ کالم مکمل کرتے ہی صوفی تبسم کی غزل دوبارہ سنوں گا۔’’دیکھے ہیں بہت ہم نے …‘‘ والے مصرعہ تک پہنچنے کے لئے۔بشکریہ ہم نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …