ہفتہ , 20 اپریل 2024

بے گھر گھروں کے مالک

سرزمین فلسطین کی تاریخ کے نشیب و فراز اس کی جغرافیائی امتیازی حیثیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ سرزمین اس اعتبار سے کہ تین براعظموں افریقہ، یورپ اور ایشیا کو آپس میں جوڑنے والی سرزمین ہے طول تاریخ میں بادشاہوں کا مطمع نظر اور حکمرانوں کے ظلم و جور کا شکار رہی ہے۔

اس سرزمین کی تہذیب ہزار سال پرانی ہے۔ فلسطین کی تہذیب کنعانیوں سے آغاز ہوتی ہے عثمانی حکومت کے دور میں اس کا عروج اور برطانیہ کے دور تسلط اور پھر صہیونیوں کے دوران ظلم و تشد سے اس کا زوال تہذیب فلسطین کے نشیب و فراز کے اہم مراحل ہیں۔

ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بھگانے اور ۱۴ مئی ۱۹۴۸ میں اس سرزمین پر صہیونیوں کے قابض ہو جانے کے بعد سے تاحال بے گھر فلسطینی تاریخ، سیاست اور غربت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور انتہائی دشوار حالات میں پناہ گزین کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔رہبر انقلاب اسلامی نے انتفاضہ فلسطین کی حمایت میں منعقدہ چھٹی بین الا قوامی کانفرنس سے خطاب میں فرمایا تھا:

“فلسطین کی درد بھری کہانی، ہر حریت پسند، حق طلب اور عدالت خواہ انسان کو آزردہ خاطر کر دیتی ہے”۔
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ عرب مقبوضہ فلسطین کے اصلی مالک ہیں لیکن بے گھر گھروں کے مالک! ایسی زمینوں کے مالک جو ان کے قبضے میں نہیں ہیں ایسے شہروں کے مالک جن پر غیروں کا تسلط ہے اور وہ آوارہ و بے سہارا کچھ عرب ملکوں کے صحراوں اور تپتے ریگستانوں میں بوریا نشین ہیں اور کچھ فلسطین میں ہی یہودی نہ ہونے کے جرم میں ظلم و ستم کی چکی تلے پس رہے ہیں۔
فلسطینیوں ایک دو مشکلات نہیں ہزاروں مشکلات کا شکار ہیں ذیل میں چند ایک طرف اشارہ کرتے ہیں:

معیشتی امتیازی سلوک
یہودی ہمیشہ سے خود کو برتر قوم اور فرزندان خدا سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے وہ اپنے علاوہ دوسرے انسانوں کو انسان نہ سمجھتے ہوئے ان کے حقوق پامال کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ مقبوضہ فلسطین میں ساکن عربوں کے بارے میں کی گئی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہودیوں نے ان عربوں کو انسانی زندگی کی تمام سہولیات سے محروم رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ غربت اور مفلسی کی زندگی گزارنے یا ثروتمند یہودیوں کے آگے مزدوری کرنے پرمجبور ہیں۔

یہودیوں نے معیشت کے تمام ذرائع کو اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے تجارت اور بازار یہودیوں کے قبضے میں ہے اور فلسطینی عرب صرف ان کی غلامی کرنے پر مجبور ہیں۔آیت اللہ خامنہ ای صہیونی ریاست کے سماجی طرز برتاو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“مقبوضہ فلسطین پر حاکم صہیونی حکومت ایک نسل پرست قوم ہے؛ نسل پرست قوم سے کیا عدالت کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ایسی رژیم جو دنیا کے ثروتمندوں اور طاقتوروں کے ذریعے وجود میں آئی ہو اس کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ عالم اسلام کو متحد نہ ہونے دے، انہیں سربلند نہ ہونے دے، مسلمانوں کو یک مشت نہ ہونے دے کہ کبھی اس کے لیے خطرہ نہ بن جائیں ایسی رژیم سے کیا عدل و انصاف کی امید کی جا سکتی ہے؟”

تعلیمی مشکلات
صہیونیوں نے عربوں کی زمینوں پر تسلط قائم کرنے کے بعد ان کی ثقافت کو بھی مٹانے کی بھر پور کوششیں کیں کسی بھی قوم و ملت کی ثقافت کو مٹانے کے لیے کافی ہوتا ہے کہ ان کے نظام تعلیم کو بدل دیا جائے اس لیے کہ بچوں کو بچپن سے جو کلچر اور ثقافت سکھائی جاتی ہے وہ پتھر پر لکیر .بشکریہ روزنامہ قدس

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …