جمعہ , 19 اپریل 2024

کیا احتجاجی تحریک کے حالات بن گئے ہیں؟

(عباس مہکری)

سابق صدر آصف علی زرداری نے اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں کے سوالوں کے مختصر جوابات دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت عید الفطر کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک چلائے گی۔ آصف علی زرداری کی اس بات کے بعد یہ سوالات پیدا ہونے لگے ہیں کہ کیا صرف دس ماہ میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک کے حالات پیدا ہو گئے ہیں ؟ کیا پیپلز پارٹی یا کوئی سیاسی جماعت تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہے ؟ اور اگر تحریک چلی تو وہ کیا رخ اختیار کرے گی ؟

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور متعدد فیصلوں سے مہنگائی میں جو اضافہ ہوا ہے، وہ عام آدمی بھی محسوس کرنے لگا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ عام آدمی کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ ہم اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتے کہ ان حالات کی ذمہ داری تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوتی ہے یا یہ ماضی کی حکومتوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جیسا کہ تحریک انصاف کے لوگ کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ غیر معمولی حالات تحریک انصاف کی حکومت میں پیدا ہوئے ہیں اور عام آدمی اس کا ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت کو ہی قرار دیتا ہے۔ یہ حالات کا معروضی سیاسی پہلو ہے۔ ان حالات نے نہ صرف دس ماہ میں تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ توقعات کو نہ صرف مایوسی میں تبدیل کر دیا ہے بلکہ تحریک انصاف کی سیاسی مقبولیت کا گراف بھی بہت نیچے آیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے اعداد و شمار اور زیادہ مایوس کن ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے اور حکومت کے دیگر اقتصادی اقدامات سے نہ صرف اشیائے ضرورت کی چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں بلکہ ایک جھٹکے میں مزید ایک کروڑ آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے۔ کچھ روز پہلے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر کا سوشل میڈیا پر وڈیو پیغام سنا، جس میں انہوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے معاشرے پر نفسیاتی اثرات کے تناظر میں یہ مشورہ دیا کہ لوگوں کو ذہنی صحت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اقبال آفریدی جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی میں نفسیات کے پروفیسر اور اس شعبہ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لوگوں کو امید دلائی ہے تاہم موجودہ معاشی حالات میں لوگوں کو اپنی ذہنی صحت پر توجہ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ماہر نفسیات نے بھی موجودہ معاشی حالات کے نفسیاتی اثرات کو محسوس کر لیا ہے اور حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کو متنبہ بھی کر دیا ہے۔ یعنی پاکستانی معاشرے میں پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت کو لوگ محسوس کر رہے ہیں۔ یہ بات ماہرین نفسیات کے ساتھ ساتھ اہل دانش کو بھی محسوس ہو رہی ہے کہ پاکستان میں سیاسی بے چینی اور ہیجانی کیفیت میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی حالات کسی بھی سیاسی تحریک کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔ ان حالات میں آصف علی زرداری کی بات کو ز یادہ سنجیدگی سے زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے صرف دس ماہ کے اندر ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سیاسی تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں۔ کیا وہ اس تحریک میں دیگر سیاسی قوتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلے گی ؟ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی تحریک چلانے کی صلاحیت کا اندازہ اس وقت لگایا جا سکے گا، جب وہ باقاعدہ تحریک چلانے کا آغاز کرے گی۔ بلاول بھٹو زرداری کی حالیہ سرگرمیوں اور سیاسی بیانیہ کی وجہ سے مزاحمتی قوتوں میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ احتجاجی تحریک کی کامیابی کا انحصار دیگر سیاسی قوتوں کی حمایت پر بھی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر ہم خیال جماعتوں کو اگر مولانا فضل الرحمٰن یکجا کرنے اور پیپلز پارٹی کی مجوزہ سیاسی تحریک کی حمایت کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو احتجاجی تحریک سیاسی رخ اختیار کر سکتی ہے اور سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں رہے گی۔ اگر پیپلز پارٹی احتجاجی تحریک شروع نہیں کرتی ہے اور دیگر سیاسی قوتیں بھی اس کا ساتھ نہیں دیتی ہیں تو بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی اور سماجی ہیجان پھر کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں اور معاملات سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں نہیں ہوں گے۔ ایسے میں ان انتہا پسند قوتوں کے لیے بھی حالات سازگار ہو سکتے ہیں، جن کے بارے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’’مفاہمت ‘‘ میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافے کا یہ قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور بعض ملکی اور بین الاقوامی طاقتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ پاکستان سمیت اسلامی دنیا میں یہ قوتیں آگے آئیں۔ اللہ کرے ایسے حالات پیدا نہ ہوں۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت نے موجودہ حالات میں غریب طبقات کو ریلیف دینے کے جو اقداما ت کیے ہیں، ہماری دعا ہے کہ وہ نتیجہ خیز ہوں اور سیاسی بے یقینی اور سماجی ہیجان کی کیفیت کا خاتمہ ہو۔بشکریہ جنگ نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …