بدھ , 24 اپریل 2024

سون بھدر: انڈیا کا وہ شہر جو سونا اگلتا ہے

سونبھدر

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلع سون بھدر میں سینکڑوں ٹن سونے کے ذخیرے کا پتہ چلا ہے۔بتایا جارہا ہے کہ ریاستی حکومت کو کافی عرصہ پہلے ہی اس کے بارے میں معلومات حاصل تھی۔سونے کی تلاش میں جیولوجیکل سروے آف انڈیا (جی ایس آئی) کی ٹیم گذشتہ پندرہ برسوں سے سون بھدر میں اس سلسلے میں کام کر رہی تھی اور آٹھ سال پہلے ٹیم نے زمین کے اندر سونے کے خزانے کی تصدیق کی تھی۔اترپردیش حکومت نے اب سونے کی کھدائی کے ارادے سے اس ٹیلے کو فروخت کرنے کے لیے ای نیلامی کا عمل شروع کردیا ہے۔ریاست کے محکمہ معدنیات نے اس کی تصدیق کی ہے اور جلد ہی محکمہ اس سونے کو نکالنے کے لیے کھدائی شروع کر دے گا۔

دریائے سون کی وجہ سے نام
سون بھدر ضلعے کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق یہ انڈیا کا واحد ضلع ہے جس کی حدیں چار ریاستوں سے متصل ہیں۔یہ ریاستیں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور بہار ہیں۔ یہ اتر پردیش کے جنوب مشرق میں واقع ہے اور یہ ایک صنعتی علاقہ ہے۔یہاں بہت سی معدنیات دستیاب ہیں جیسے باکسائٹ، چونا پتھر، کوئلہ، سونا۔ سون بھدر کو توانائی کا دارالحکومت کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں بہت زیادہ بجلی گھر موجود ہیں۔سون بھدر کا نام سون بھدر کیوں رکھا گیا تھا اور کیا اس کا تعلق سونا سے ہے؟ اس بارے میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پربھاکر اپادھیائے کا کہنا ہے اس کا نام سون بھدر دریائے سون کے نام پر پڑا ہے لیکن دریائے سون اس کی واحد وجہ نہیں ہے۔ دریا کا نام سون اس لیے پڑا تھا کہ وہاں سونے کے عنصر اور ذرے ملتے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف سون ندی بلکہ مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کے کچھ حصوں میں بھی ریت میں سونے کے ذرے ملے ہیں۔
سونبھدر

دریائے سون کی وجہ سے نام

سون بھدر ضلعے کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق یہ انڈیا کا واحد ضلع ہے جس کی حدیں چار ریاستوں سے متصل ہیں۔یہ ریاستیں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور بہار ہیں۔ یہ اتر پردیش کے جنوب مشرق میں واقع ہے اور یہ ایک صنعتی علاقہ ہے۔یہاں بہت سی معدنیات دستیاب ہیں جیسے باکسائٹ، چونا پتھر، کوئلہ، سونا۔ سون بھدر کو توانائی کا دارالحکومت کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں بہت زیادہ بجلی گھر موجود ہیں۔سون بھدر کا نام سون بھدر کیوں رکھا گیا تھا اور کیا اس کا تعلق سونا سے ہے؟ اس بارے میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پربھاکر اپادھیائے کا کہنا ہے اس کا نام سون بھدر دریائے سون کے نام پر پڑا ہے لیکن دریائے سون اس کی واحد وجہ نہیں ہے۔ دریا کا نام سون اس لیے پڑا تھا کہ وہاں سونے کے عنصر اور ذرے ملتے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف سون ندی بلکہ مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کے کچھ حصوں میں بھی ریت میں سونے کے ذرے ملے ہیں۔

سونبھدر

سارا علاقہ لوہے کی پٹی
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’ان دریاؤں کے کنارے سونا نکالنے کا کام ہوا کرتا تھا۔ یہاں چٹانوں کی ساخت ایسی ہے کہ جب یہ پتھر ٹوٹ کر دریا کے ساتھ رابطہ میں آجاتے ہیں تو وہ ٹوٹ جاتے ہیں اور بکھر جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان دریاؤں کے کنارے سونا چھاننے کا رحجان بڑھا تھا۔ ان دریاؤں میں سونے کے زرات پائے جانے کا مطلب ہے کہ وہاں کی چٹانوں میں سونا پایا جاتا ہے۔ قبائلی ایک عرصے سے اس علاقے میں یہ کام کرتے آئے ہیں۔‘

دوسری جانب الہ آباد یونیورسٹی قدیم تاریخ کے شعبہ میں سابق پروفیسر جی این پال کا کہنا ہے کہ سون بھدر کا نام دریائے سون کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا سونے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی دریا میں سونے کے ذرات ملنے کی بات درست ہے۔وہ وضاحت کرتے ہیں: ’ایسا کہا جاتا ہے کہ یہاں گولڈ واشنگ کا کام ہوتا تھا لیکن یہ صرف کہانیاں ہیں اس کی تصدیق شدہ معلومات موجود نہیں ہے۔‘آگرہ سے لے کر بہار اور بنگال تک دریائے گنگا کا میدانی اور سپاٹ پورا علاقہ آئرن بیلٹ کہلاتا ہے۔

سونبھدر

محکمہ آثار قدیمہ

پروفیسر اپادھیائے کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں لوہے کی کثرت ہے اور گنگا کے آس پاس شہریت کے پھلنے پھولنے کی وجہ بھی لوہے کی دستیابی تھی۔انھوں نے کہا: ’سون بھدر میں ایک جگہ سونکوروا ہے۔ یہاں لوگوں نے سونے کی تلاش کے لیے بہت کھدائی کی ہے اور اس کی باقیات اب بھی مل رہی ہیں۔ لیکن یہ کھدائی زیادہ گہری نہیں ہوئی ہے۔ لوگوں نے صرف 20 فٹ تک کھدائی کی ہے اور جو کچھ تھوڑا سونا ملا انھوں نے وہ رکھ لیا۔ لوگوں کو سونا بار بار ملتا رہا لیکن ہمیشہ سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ اس علاقے میں سونا بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے۔‘پروفیسر اپادھیائے کہتے ہیں کہ محکمہ آثار قدیمہ کے سروے نے اس علاقے میں بہت گہری کھدائی کی تھی لیکن اس میں جو سونا ملا وہ معاشی طور پر مؤثر نہیں تھا۔ یعنی سخت محنت اور خرچ کے بعد سونے کی قیمت بہت زیادہ نہیں نکلی تھی جبکہ سونے کی کھدائی اور تلاش کرنے میں آنے والا خرچ کافی زیادہ تھا لہذا کام کو آگے نہیں بڑھایا گیا تھا۔

درائے سون

سونبھدر کی ثقافت

پروفیسر اپادھیائے نے کہا: ’میں وہاں پی ایچ ڈی کے لیے گیا تھا۔ وہاں کچھ چٹانوں کی باقیات ملی تھیں جن میں سونے کے باقیات تھے۔ ہم کچھ چیزیں لے کر آئے تھے۔ ہم اسے بطور پیپر ویٹ استعمال کرتے ہیں۔‘پروفیسر پربھاکر اپادھاییئے نے سنہ 2005 میں ’مانز این منرلز ان اینشیئنٹ انڈیا‘ یعنی قدیم ہندوستان میں کان اور معدنیات نامی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں سون بھدر اور آس پاس کے علاقے میں سونے کی موجودگی کے علاوہ کان کنی اور معدنیات کی موجودگی کا بھی ذکر ہے۔سون بھدر ایک انتہائی پسماندہ علاقہ سمجھا جاتا ہے اور یہ دراصل ایک قبائلی علاقہ تھا۔ تاہم اب یہاں بہت ترقی ہوئی ہے۔ یہاں کی ثقافت بھی قبائلی رہی ہے۔ اب یہاں بہت ساری صنعتیں جیسے سیمنٹ، ریت، تھرمل پاور پلانٹس قائم ہو چکے ہیں۔

سونبھدر

یورینیم کی دریافت سچ ہوسکتی ہے

الہ آباد یونیورسٹی میں قدیم تاریخ کے شعبہ کے ریٹائرڈ پروفیسر جی این پال کہتے ہیں کہ کس طرح ماقبل تاریخ کے لوگوں نے یہاں اپنی ثقافت کی نشوونما کی۔ محکمہ آثار قدیمہ کی کھدائی سے یہاں قدیم تہذیب اور آبادی کے شواہد ملے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گولڈ واشنگ کا کام ہوتا تھا جو کہ محض کہانیاں ہیں۔انھوں نے کہا: ’اشوک کے کتبے یہاں ملتے ہیں۔ لہذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اشوک کے دور حکومت میں لوگ یہاں آباد تھے۔ عہد موریا اور گپتا دور کی اشیا بھی ملتی ہیں۔ لیکن سونے کی دریافت کی بات پہلی بار سامنے آئی ہے۔‘ان کا خیال ہے کہ زمین کے اندر سونے کے علاوہ یورینیم کی دریافت بھی سچ ہو سکتی ہے۔پروفیسر پال کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 1980 کی دہائی میں آثار قدیمہ کی تحقیق کے لیے سونبھدر کے علاقے میں گئے تھے۔ وہاں کسی دھات کے ماخذ پر تحقیق کی گئی تھی لیکن سونے کی موجودگی کے آثار نہیں ملے تھے جبکہ پہلے بھی لوہے کی موجودگی کے شواہد مل چکے ہیں۔

سونبھدر

وراثت اور ثقافت

سون بھدر ضلع کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق ضلع کے جنوب میں چھتیس گڑھ ریاست اور مدھیہ پردیش ریاست کا سنگرولی ضلع مغرب میں ہے۔ اس کا ضلعی صدر مقام رابرٹس گنج شہر ہے۔سون بھدر ضلع وندھیا کے علاقے میں پائی جانے والی بہت سی غار پینٹنگ سائٹس کے لیے جانا جاتا ہے۔لکھنیا غار کیمور پہاڑیوں میں واقع ہیں اور یہ راک پینٹنگس کے لیے شہرت رکھتی ہیں۔

سونبھدر

ان تاریخی نقش کنندہ پہاڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 4000 سال قدیم ہیں اور یہ ایک عہد کی ثقافت اور عقائد کی عکاسی کرتی ہیں۔یہاں کھڈوا پہاڑی یا گھور منگار ایک اور مشہور قدیم غار پینٹنگ کی سائٹ ہے۔اس خطے میں دو ڈیم ریہند ڈیم اور برکندھرا ڈیم بھی موجود ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

ترک صدر اردوغان نے نیتن یاہو کو غزہ کا قصائی قرار دیدیا

انقرہ:ترک صدر رجب طیب اردوغان نے نیتن یاہو کو غزہ کا قصائی قرار دیا ہے۔ترکی …