بدھ , 24 اپریل 2024

اسرائیل کی نئی پارلیمان میں عرب جماعتوں کی زیادہ نمایندگی، نیتن یاہو اکثریت کے بغیر فاتح

اسرائیل میں سوموار کے روز منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں ڈالے گئے نوّے فی صد سے زیادہ ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے۔گذشتہ ایک سال میں منعقدہ ان تیسرے انتخابات میں بھی کوئی اسرائیلی جماعت 120 ارکان پر مشتمل الکنیست میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی ہے۔ البتہ اسرائیلی عرب جماعتوں کی نشستوں کی تعداد میں ضرور اضافہ ہوگیا ہے۔عرب جماعتوں کی مشترکہ فہرست میں سے پندرہ امیداوار الکنیست کا رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اسرائیل میں آباد عرب ملک کی کل آبادی کا 21 فی صد ہیں۔اسرائیل ڈیمو کریسی (آئی ڈی آئی) سے وابستہ محقق ایرک رودنزکی کا کہنا ہے کہ عرب ووٹروں کا ٹرن آؤٹ 64۰7 فی صد رہا ہے اور یہ عربوں کی گذشتہ 20 سال کے دوران میں ووٹ ڈالنے کی سب سے زیادہ شرح ہے۔سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پولنگ کے روز عرب ووٹروں کے جوش وخروش اور حق رائے دہی کے لیے گھروں سے نکلنے سے انتہا پسند اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی امیدیں خاک میں مل کر رہ گئی ہیں اور وہ حکومت بنانے کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ایک مرتبہ پھر ناکام رہے ہیں۔

عرب اتحاد کے لیڈر ایمن عودہ نے عرب شہر شفارام میں اپنے حامیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”نیتن یاہو صرف ایک وجہ سے 61 نشستیں حاصل نہیں کرسکے ہیں اور وہ مشترکہ لسٹ کا عروج ہے۔”نیتن یاہو نے سوموار کو پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد رائے عامہ کے جائزوں کی بنیاد پر اپنی جماعت لیکوڈ کی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا لیکن اب انتخابی نتائج قریب قریب مکمل ہوچکے ہیں۔ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حکومت بنانے کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ان کے مد مقابل مسلح افواج کے سابق سربراہ بینی گانتز کی نیلی اور سفید پارٹی بھی حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بینی گانتز نے کہا کہ ان انتخابی نتائج کے بعد ایک اور سیاسی تعطل جنم لے گا۔انھوں نے نیتن یاہو کے مقابلے میں اپنی شکست کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔منگل کی شب تک 90 فی صد سے زیادہ ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی تھی اور نیتن یاہو کی جماعت کو 59 نشستیں حاصل ہونے کی امید ہے۔اب انھیں مخلوط حکومت بنانے کے لیے اسرائیل کی انتہا پسند مذہبی سیاسی جماعتوں کی حمایت درکار ہوگی۔اسرائیل میں ان پارلیمانی انتخابات کے بعد سابق انتہا پسند وزیر دفاع ایویگڈورلائبرمین ایک مرتبہ پھر بادشاہ گر بن کر ابھرے ہیں اور مذکورہ دونوں بڑے سیاسی لیڈروں کو نئی حکومت کی تشکیل کے لیے ان کی یسرائیل بیتنو کی حمایت درکار ہوگی۔تاہم واضح رہے کہ گذشتہ سال اپریل اور پھر ستمبر میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات کے بعد لائبرمین کو نیتن یاہو یا بینی گانتز نے گھاس نہیں ڈالی تھی۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …