جمعہ , 19 اپریل 2024

کورونا کے خوف کے باعث مائیں بچوں کو دودھ پلانا نہ چھوڑیں، رپورٹ

اسلام آباد: کورونا وائرس سے دنیا بھر میں 57 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں اور وبا کے باعث بچوں کی غذائی قلت جیسے معاملات بھی سر اٹھا رہے ہیں، تاہم ایک تازہ رپورٹ میں ماؤں کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ وبا کے ڈر کے باعث بچوں کو دودھ پلانا نہ چھوڑیں، اس بات کے شواہد نہیں ہیں کہ کورونا ماں کے دودھ میں ہوسکتا ہے۔

یہ بات عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) یونائیٹڈ نیشنز چلڈرین فنڈ (یو این سی ایف) اور انٹرنیشنل بے بی فوڈ ایکشن نیٹ ورک (آئی بی ایف اے این) کی جانب سے (چھاتی کے دودھ کے متبادل ذرائع پر عالمی معیار کے مطابق قومی درآمد) کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے بہت کم امکان ہیں کہ بریسٹ فیڈنگ یا چھاتی کا دودھ پلائے جانے سے بچے میں وائرس منتقل ہو سکتا ہے، یہ خدشات ایسی ماؤں کی جانب سے کیے جا رہے ہیں جو کورونا میں مبتلا ہو چکی ہیں یا ان میں کورونا جیسی علامات پائی جاتی ہیں، تاہم اگر کورونا میں مبتلا خواتین بھی چاہیں تو نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلا سکتی ہیں۔

ایسی ماؤں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ الکوحل یا صابن سے بار بار ہاتھ دھوتی رہیں اور خاص طور پر جب وہ بچوں کو چھونا چاہیں تو ایسا لازمی کریں، بچے کو گود میں لانے سمیت اسے دودھ پلاتے وقت فیس ماسک کا استعمال کریں، کھانستے اور چھینکتے وقت ٹشو کا استعمال کریں اور پھر محفوظ طریقے سے اس ٹشو کو تلف کرنے کے بعد دوبارہ ہاتھ دھوئیں۔انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر ماؤں کے پاس میڈیکل فیس ماسک نہیں ہے تو وہ انفیکشن سے محفوظ رہنے کے لیے دیگر حفاظتی اقدامات اٹھائیں مگر بچوں کو دودھ پلانا نہ چھوڑیں۔

انٹرنیشنل بے بی فوڈ ایکشن نیٹ ورک گلوبل کونسل کی عہدیدار پیٹی رنڈال کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ کورونا کی منتقلی کے خوف کی وجہ سے دنیا بھر میں ماؤں کی جانب سے نوزائیدہ بچوں کو دودھ دینے میں کمی ہوئی ہے، کئی ممالک میں بچوں اور ماؤں کو احتیاط کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ رکھا جا رہا ہے، جس کے باعث جہاں بچوں کو دودھ نہیں دیا جا رہا، وہیں انہیں اسکن ٹو اسکن ریلیف بھی نہیں مل رہا اور یہ سب کچھ تصدیقی ثبوتوں کے بغیر ہی کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق ساتھ ہی بے بی فوڈ انڈسٹری کو غلط مشورے اور تجاویز دے کر اسے نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور ساتھ ہی مشورے دینے والے دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اس شعبے کے خیر خواہ ہیں اور وہ ان کے قابل بھروسہ ساتھی بھی ہیں۔رپورٹ میں حاملہ خواتین، ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ہیلتھ ورکرز کے بریسٹ ملک سبسٹی ٹیوٹ (بی ایم ایس) کے نامناسب کردار پر بھی بات کی گئی ہے اور اس میں ہیلتھ ورکرز اور طبی سہولیات کا جائزہ لے کر ان کے خلاف قانونی اقدامات کا جائزہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ساتھ ہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقصان دہ بی ایم ایس کی حوصلہ شکنی کے باوجود کئی ممالک میں والدین کو گمراہ کن معلومات فراہم کی جا رہی ہے۔کورونا وائرس نے اس بات کی بھی اہمیت کو اجاگر کیا ہے کہ صحت کے حوالے سے جھوٹے دعوے اور غلط معلومات سمیت بی ایم ایس کے حوالے سے گمراہ کن معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔

چھاتی کا دودھ جہاں بچے کی زندگی کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، وہیں وہ بچے کو اینٹی باڈیز فراہم کرنے سمیت اس کی نشو و نما میں اہم کردار ادا کرتا اور اسے بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔مذکورہ رپورٹ میں جن 194 ممالک کا تجزیہ کیا گیا ہے، ان میں سے 136 ممالک میں بی ایم ایس کی مارکیٹنگ سے متعلق عالمی قوانین کے تحت کچھ قانون سازی موجود تھی، جسے عالمی ادارہ صحت کی اسمبلی نے تجویز کیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر کے 44 ممالک نے گزشتہ 2 سال میں اس ضمن میں کوششیں لے کر مارکیٹنگ ضوابط کو مزید سخت بنایا ہے۔صرف 79 ممالک ایسے ہیں جہاں صحت کی سہولیات کے دوران بی ایم ایس پر مکمل پابندی ہے جب کہ 51 ممالک میں بی ایم ایس کی مفت یا سستے داموں سے متعلق پابندیاں عائد ہیں، تاہم بیشتر جگہوں پر صحت کی سہولیات کے دوران اس کی مکمل مارکیٹنگ پر پابندی عائد نہیں ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے نیوٹریشن اینڈ فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر فرانسسکو برانکا کے مطابق بی ایم ایس کی جارحانہ مارکیٹنگ نقصان دہ ہے اور خاص طور پر اس کی پیشہ ور صحت کے رضاکاروں سے کی جانے والی مارکیٹنگ نقصان دہ ہے اور یہ عالمی سطح پر نوزائیدہ بچوں کی صحت کی بہتری میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہیلتھ کیئر سسٹم کو والدین کو بچوں کو دودھ پلانے کے لیے حوالے سے حوصلہ دینا چاہیے، تاکہ بچوں کی زندگی محفوظ ہو سکے۔

عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف تجویز دیتا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو ابتدائی 6 ماہ تک صرف ماں کا دودھ ہی دینا چاہیے جب کہ اس کے بعد 2 سال تک ماں کے دودھ سمیت بچوں کو صحت سے بھرپور غذائیت دی جانی چاہیے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ 2 سال میں 44 ممالک کے اندر غلط بی ایم ایس مارکیٹنگ کے خلاف سخت ضوابط نافذ کیے گئے، 2018 کے بعد 11 ممالک جن میں پاکستان کے صوبے پنجاب، بحرین، چاڈ، مصر، لاؤ پیپلز ڈیموکریٹک ری پبلک، نائیجیریا، ری پبلک آف مولڈووا ، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور ازبکستان نے قوانین میں تبدیلی یا ترمیم بھی کی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے صوبے پنجاب نے دیگر صوبوں سے بازی لے جاتےہیں اس طرح کی نامناسب پریکٹس کو روکنے یا اس کی حوصلہ شکنی کےلیے نئے قوانین نافذ کرائے۔

علاوہ ازیں رپورٹ میں پاکستان، نیپال اور میانمار کو اس ضمن میں بنائے گئے قوائد کے حوالے سے متعدل قرار دیا گیا ہے، دوسری جانب افغانستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب اور بھارت جیسے ممالک کے ضوابط کو معقول قرار دیا گیا ہے۔اس حوالے سے پاکستان نیوٹریشن کے مینیجر ڈاکٹر بصیر خان اچکزئی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چند سال تک پاکستان میں بریسٹ فیڈنگ کی شرح 38 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 48 فیصد تک جا پہنچی ہے۔درست انداز میں چھاتی کا دودھ پلانے کے حوالے سے ہدایات فراہم کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس طرح کا کوئی بھی طریقہ کار نہیں ہے، جس میں ماؤں کو سمجھایا جائے کہ بچوں کو بہتر اور درست انداز میں کس طرح چھاتی کا دودھ پلایا جاتا ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 2009 میں ایک قانون بنایا گیا تھا جس پر بی ایم ایس کمپنیوں کو بڑی مشکل سے عمل کرنے پر مجبور کیا گیا اور انہیں اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ اپنی مصنوعات پر لکھیں کہ بچوں کے لیے ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔

بچوں میں کورونا وائرس
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کے مطابق صوبے میں اب تک کورونا وائرس سے 882 بچے متاثر ہوچکے ہیں۔انہوں نے اپنی ٹوئیٹ میں بتایا کہ اب تک صوبے میں 10 سال سے کم عمر 882 بچے کورونا کا شکار بن چکے ہیں، اتنی بڑی تعداد سے اندازا ہوتا ہے کہ ہم کتنے لاپرواہ ہو چکےہیں اور وائرس کو ہم خود ہی باہر سے گھر لائے، ہم سماجی دوری کو اپنانے اور خریداری کو مؤخر کیوں نہیں کرسکتے۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا پہلے ہی کہہ چکےہیں کہ کورونا سے اموات میں اضافے سمیت کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، بازاروں اور مارکیٹیوں میں عوام کا رش دیکھا جا رہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ کورونا ختم ہوگیا۔ان کا کہنا تھا کہ بیماری مسلسل پھیل اور بڑھ رہی ہے اور ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کب تک چلے گی، اگر ہم نے احتیاط نہ برتا تو ہماری غلطیاں سانحے میں بدل سکتی ہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

ڈائری لکھنے سے ذہنی و مدافعتی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

لندن:کمپیوٹرائزڈ اور اسمارٹ موبائل فون کے دور میں اب اگرچہ ڈائریز لکھنے کا رجحان کم …