جمعہ , 19 اپریل 2024

جنت البقیع کی شہادت آل سعود کی اہلبیت(ع)، ازواج اور اصحاب رسول(ص) کے خلاف دشمنی کا منہ بولتا ثبوت

جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع اہم قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد، اہل بیت علیھم السلام ،امہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اور دوسرے اہم افراد کی قبریں موجود ہیں ان مطہر اور مبارک قبروں کو آل سعود نے 8 شوال 1344 ہجری قمری میں بے حرمتی کرتے ہوئے شہید کردیا تھا۔

 تاریخی شواہد کے مطابق جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع اہم قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد، اہل بیت علیھم السلام ،امہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اور دوسرے اہم افراد کی قبریں موجود ہیں ان مطہر اور مبارک قبروں کو آل سعود نے 8 شوال 1344 ہجری قمری مطابق 1925 عیسوی میں بے حرمتی کرتے ہوئے شہید کردیا تھا۔

آل سعود اور وہابی دہشت گردوں نے یہ سیاہ کارنامہ 8 شوال 1344 ہجری قمری میں انجام دیا۔ انھوں نے یہ مجرمانہ عمل اسلامی تعلیمات کی آڑ میں انجام دیا ، جبکہ اہلسنت علماء اور شیعہ علماء قبور کی تعمیر اور ان کی حرمت کے قائل ہیں ۔ شیعہ اور سنی علماء اور دانشور انبیاء، اولیاء، اوصیاء ، صحابہ کرام ، آئمہ معصومین (ع) اور امہات المؤمنین کی قبور کی بے حرمتی کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ وہابیوں نے اہلسنت کا لبادہ اوڑھ کر جنت البقیع میں انبیاء، اولیاء، اوصیاء ، صحابہ کرام ، آئمہ معصومین (ع) اور امہات المؤمنین کی قبور کو شہید اور منہدم کردیا، وہابیوں کے اس اقدام کی سن 1344 ہجری سے لیکر آج تک مذمت کا سلسلہ جاری ہے، عالم اسلام میں 8 شوال کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جنت البقیع مدینہ کا سب سے پہلا اور قدیم اسلامی قبرستان ہے۔ شیعہ اماموں میں سے چار آئمہ(ع)، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ، صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اکابرین اسلام اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔

آئمہ معصومین(ع) اور بعض دوسرے اکابرین کی قبروں پر گنبد و بارگاہ موجود تھی، جسے پہلی بار تیرہویں صدی ہجری اور دوسری بار چودہویں صدی ہجری میں وہابیوں نے شہید اور منہدم کردیا، جس پرپاکستان ، ایران اور ہندوستان سمیت مختلف اسلامی ممالک کے شیعہ اور سنی علماء اور عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ جنت البقیع قبرستان میں موجود چار آئمہ معصومین (ع) اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بیت الحزن پر موجود گنبد جو بیت الاحزان کے نام سے معروف تھا، وہابیوں کے پہلے حملے ہی میں شہید ہو گئے۔ عبدالرحمن جَبَرتی کے بقول وہابیوں نے پہلے حملے کے ایک سال بعد مدینہ کا محاصرہ کر کے قحط سالی ایجاد کی اور مدینہ منورہ میں داخل ہو گئے اور مسجد النبی (ص) کے علاوہ باقی تمام گنبدوں کو شہید اورمسمار کر دیا۔

8 شوال 1344 قمری میں سعودیہ عربیہ کی حکومت نے قبور اہلبیت (ع) کی زیارت کو شرک اور بدعت قراردیتے ہوئے قبرستان بقیع کے تمام اسلامی اور تاریخی آثار کو شہید اور منہدم کر دیا۔ انبیا اور اولیاء ، اہلبیت (ع) اور صحابہ کرام کی قبور پر گنبد کی تعمیرکو اہلسنت اور شیعہ علماء جائز سمجھتے ہیں جبکہ وہابی علماء بے بنیاد اور سازشی وجوہات کی بنا پر ناجائز سمجھتے ہیں، وہابیوں نے مال و زر اور طاقت کے زور پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے اسلامی آثار کو بے دردی اور بے رحمی  کے ساتھ محو کردیا اور آج بھی وہابی دہشت گرد تنظیمیں اولیاء کرام اور ممتاز اسلامی شخصیات کے مزاروں کو شہید اور منہدم کرنے کے عقیدے پر گامزن ہیں۔ دنیا بھر کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کو وہابیوں کے اس مکروہ ،بھیانک ، ناپاک اور گمراہ کن عقیدے کا باہمی اتحاد اور اتفاق کے ذریعہ مقابلہ کرنا چاہیے۔

جنت بقیع کے لفظی معنی درختوں کا باغ ہے اور تقدس کی خاطر اس کو جنت البقیع کہا جاتا ہے یہ مدینہ میں ایک اہم اسلامی قبرستان ہے جس کی ابتدا ٣ شعبان ٣ھ کو عثمان بن مزون کے دفن سے ہوئی، اس کے بعد یہاں آنحضرت کے فرزند حضرت ابراہیم کی تدفین ہوئی ۔ آنحضرت(ص) کے دوسرے رشتہ دار صفیہ ،عاتکہ اور فاطمہ بنت اسد (ع) بھی یہاں دفن ہیں ۔ جنت البقیع میں امام حسن (ع)، امام زین العابدین(ع) ، امام محمد باقر (ع)، امام جعفر صادق(ع) ،ازواج، اصحاب اور اقربائے پیغمبراکرم(ص)  اور شہدائے راہِ حق کے مزارات تھے۔ بقیع میں دفن ہونے والوں کو آنحضرت خصوصی دعا میں یاد کرتے تھے اس طرح بقیع کا قبرستان مسلمانوں کے لئے ایک تاریخی امتیاز و تقدس کا مقام بن گیا۔

ساتویں صدی ہجری میں عمر بن جبیر نے اپنے مدینہ کے سفر نامہ میں جنت البقیع میں مختلف قبور پر تعمیر شدہ قبوں اور گنبدوں کا ذکر کیا ہے جس میں حضرت ابراہیم (ع) ( فرزند آنحضرت(ص)) عقیل ابن ابی طالب (ع)،عبداﷲ بن جعفر طیار(ع)، امہات المومنین، عباس ابن عبدالمطلب(ع) کی قبور شامل ہیں۔ قبرستان کے دوسرے حصہ میں حضرت امام حسن (ع) کی قبر اور عباس ابن عبدالمطلب کی قبر کے پیچھے ایک حجرہ ، موسوم بہ بیت الحزن ہے جہاں جناب سیدہ جاکر اپنے والد کو یاد کرکے روتی تھیں۔ تقریباً ایک سو سال بعد ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں بقیع کا جو خاکہ بنایا ہے وہ اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ سلطنت عثمانی نے بھی مکہ اور مدینہ کی رونق میں اضافہ کیا اور مقامات مقدسہ کے فن تعمیر اور زیبائش میں اضافہ کیا اور ١٨٧٨ء کے دوران دو انگریزی سیاحوں نے بھیس بدل کر ان مقامات کا دورہ کیا اور مدینہ کو استنبول کے مشابہ ایک خوبصورت شہر قرار دیا۔ اس طرح گزشتہ ١٢ سو سال کے دوران جنت البقیع کا قبرستان ایک قابل احترام جگہ رہی جو وقتاً فوقتاً تعمیر اور مرمت کے مرحلوں سے گزرتی رہی۔

تاریخی حوالوں اور زائرین کے اقوال کے مطابق جنت البقیع میں اولاد رسول(ص) کی قبروں پر قبے اور روضے تعمیر تھے اس کے علاوہ شہزادی کونین حضرت فاطمہ(ص) کی یادگار بیت الحزن بھی تعمیر تھا  استعماری سازشوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والی سعودی حکومت نے وہابی نظریات کے اتباع میں ان مقدس بارگاہوں کو شہید اور منہدم کردیا۔انہدام کی یہ کاروایی دو مرتبہ دہرایی گئی۔ پہلی بار سن۱۲۲۰ھ اور دوسری بارسن ۱۳۴۴ھ ۔ پہلی بار انہدام کے بعد سن۱۲۳۴ھ  میں عثمانی حکومت کے فرماںروا سلطان محمود ثانی کے حکم سے ان میں سے بعض بارگاہیں دوبارہ تعمیر ہوئیں۔
استعماری طاقتوں نے اپنے ناپاک مقاصد کے لئے ہمیشہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے، ان کے درمیان نفرتیں پھیلانے اور ان کی صفوں میں اختلاف پیدا کرنے کے لئے نئے نئے اعتقادات اور نظریات کا سہارا لیا ہے چنانچہ ابن تیمیہ کے نظریات کو بنیاد بناکر وہابیت کی شکل میں ایک نیا مذہب پیدا کیا۔محمد ابن عبدالوہاب نامی خود سر جوان کو اپنے مشن کی کامیابی کے لئے آلہ کار بنایا درعیہ کے حاکم کو پورے علاقہ کی حکومت کا لالچ دیکر عبد الوہاب کا تابع بنایا اور اس طرح مسلمانوں میں ایک طویل مدت کشمکش پیدا کر دی۔ شروع شروع میں پوری دنیا کے عام مسلمانوں نے اس غیر اسلامی حرکت کے خلاف احتجاج کیا  پھر آہستہ آہستہ دولت کی بنیاد پر وہابیت کی ترویج کے ذریعہ پوری دنیا میں اپنے ہمنوا پیدا کرلئے اگرچہ انصاف پسند مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی آج تک وہابیت کے اس اقدام کی مذمت کر رہے ہیں  وہابیوں نے طائف، جدہ، مکہ اور مدینہ میں مذہبی مقامات کے علاوہ کربلا اور نجف میں بھی اس قسم کے اقدامات کی کوشش کی لیکن وہاں کے بہادر شیعہ عوام اور اہل بیت(ع) کے دوستداروں کی مزاحمت کے سامنے  وہابی کامیاب نہ ہو سکے۔ سعودی عرب سے منسلک وہابی آج بھی القاعدہ، طالبان، داعش ، بوکوحرام ، الشباب اور النصرہ فرنٹ جیسی وہابی دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ افغانستان، پاکستان، عراق، شام اور دیگر اسلامی ممالک میں اسلامی آثار اور تاریخي مزارات کو شہید کرنے کی بھر پور کوشش میں مصروف ہیں لیکن مسلمانوں کی بیداری کی وجہ سے انھیں اب شکست اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …