ہفتہ , 20 اپریل 2024

پلازما تھراپی وائرس کا علاج نہیں، وزارت صحت

اسلام آباد: جہاں ملک بھر میں کونوالیسنٹ پلازما (سی پی) کی غیر قانونی فروخت اور خریداری جاری ہے وہیں وزارت قومی صحت (این ایچ ایس) نے اعلان کیا ہے کہ پلازما تھیراپی کو کورونا وائرس کا علاج نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

وزارت نے متنبہ کیا کہ پلازما تھراپی کے سنگین ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں جن میں فیبرل ری ایکشن [درجہ حرارت میں اضافہ اور بعض اوقات سر درد اور کمر کا درد]، الرجک رد عمل، ٹرانسفیوژن سے متعلق سرکولیٹری اوورلوڈ ، برونکاسپازم، ٹرانسفیوژن سے متعلق پھیپھڑے زخمی ہونا اور بیماریوں ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی اور سی جیسی بیماریوں کی منتقلی شامل ہے۔

ملک میں گزشتہ روز 5 ہزار 90 کورونا کیسز اور 117 اموات رپورٹ ہوئے جس کے بعد قومی سطح پر کل کیسز کی تعداد ایک لاکھ 51 ہزار 953 اور ہلاکتوں کی تعداد 2 ہزار 900 ہوگئی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوروناوائرس سے صحتیاب ہونے والے چند افراد پلازما کے لیے لاکھوں روپے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

کچھ لیبز نے پلازما کا غیر قانونی کاروبار بھی شروع کردیا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کورونا وائرس کے شکار کے خون میں اینٹی باڈیز تشکیل پاتی ہیں اور جب وہ اس بیماری سے صحت یاب ہوجاتے ہیں تو وہ اینٹی باڈی دوسرے مریضوں کو بھی صحت یاب ہونے میں مدد کرسکتی ہیں۔

چونکہ سی پی ابھی بھی تجرباتی تھیراپی ہے لہذا یہ محفوظ ماحول میں ریسرچ پروٹوکول کے تحت استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس ریسرچ کو سر انجام دینے والوں کو اپنے پروٹوکول کے لیے منظوری حاصل کرنی چاہیے اور اس کا ادارہ وزارت صحت سے منظورشدہ ہونا چاہیے جس میں نگرانی کے تحت تھیراپی شروع کی جاسکتی ہے۔

صرف منظور شدہ ہسپتالوں کو اپنے کورونا مریضوں کو کلینیکل ٹرائلز میں اندراج کی اجازت ہے جسے متعلقہ ریسرچ ریگولیٹری حکام نے کلیئر کردیا ہے۔

’کلینیکل ٹرائل‘ میں داخل کیے گئے کورونا کے مریض تحقیقی تھیراپی یعنی سی پی کو منظور شدہ صحت کی سہولت میں کسی قابل ڈاکٹر کی نگرانی میں حاصل کرنے کے اہل ہوسکتا ہے جبکہ ’آزمائشی پروٹوکول‘ پر مبنی مختلف اہلیت اور نااہلی کے معیارات ہوسکتے ہیں۔

عوام کو آگاہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت سی پی کا استعمال زیر تحقیق ہے تاہم اس وقت معیاری تھیراپی کے طور پر کورونا پلازما کے استعمال کے حق میں یا اس کے خلاف ڈیٹا ناکافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے علاج کی مؤثر ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کو نئی ٹکنالوجیوں اور مداخلتوں کی جانچ کی نگرانی کرنے کا حکم دیا ہے۔

کورونا کے مریضوں میں تحقیقاتی علاج کے طور پر روایتی پلازما کے استعمال کو جانچنے کے لیے کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں اور ان ٹرائلز میں حصہ لینے والے ہسپتالوں اور معالجین اُن کورونا مریضوں کو اندراج کرسکتے ہیں جو مطالعہ میں داخلے کے لیے اہلیت کے معیار کو پورا کرتے ہیں۔

’جو افراد کورونا سے مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں یا کم از کم دو ہفتوں سے غیر علامتی مریض ہیں اور پلازما عطیہ کرنے پر راضی ہیں وہ منظور شدہ پروٹوکول کے تحت مریضوں کو سی پی کی پیش کش کرنے والے قریبی پلازما عطیہ مراکز اور ہسپتالوں کی رہنمائی کے لیے ہیلپ لائن 1166 پر رابطہ کرسکتے ہیں‘۔

’عوام کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ علاج کرنے والے ڈاکٹر یا ہسپتال سے ٹرائل کے بارے میں معلومات کے لیے رابطہ کریں اور مختلف بلڈ بینکوں/ہسپتالوں سے پلازما کی خریداری میں رقم ادا کر کے زیادتی نہ کریں، عوام اور معالجین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ موجودہ وبائی مرض میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے پلازما کے مناسب طریقے سے استعمال کے بارے میں کلینیکل رہنمائی کے بارے میں اپنے آپ کو آگاہ رکھیں جو وزارت صحت کی جانب سے وقتا فوقتا جاری کی جائے گی‘۔

وزارت قومی صحت سروسز کی جانب سے جاری ایک سرکاری بیان کے مطابق پلازما تھیراپی کو کورونا وائرس کا علاج نہیں سمجھا جانا چاہیے کیونکہ یہ امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی منظوری کے بعد عالمی سطح پر ابھی ٹرائلز کے مرحلے میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک ایسی کوئی دوا ایجاد نہیں کی جاسکی ہے جو اس بیماری کا علاج سمجھا جائے یہاں تک کہ پلازما تھیراپی بھی کلینیکل ٹرائل کے مرحلے میں ہے، لوگوں کو ان کے بہترین مفاد میں یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ نجی لیب سے سی پی خریدنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ قواعد کے مطابق پلازما کو صرف عطیہ کیا جاسکتا ہے‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’اب تک یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پلازما تھراپی ان مریضوں پر کام نہیں کرتی ہے جو سات دن یا اس سے زیادہ وینٹیلیٹر پر رہتے ہیں، پلازما تھراپی کے ضمنی اثرات ہوسکتے ہیں لہذا یہ کسی قابل ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں نہیں ہونا چاہیے، پلازما بیچنے والے نجی ہسپتالوں اور لیبوں کی بات نہ مانی جائے‘۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ کلینیکل اسٹڈی کمیٹی آف ڈریپ نے 9 اپریل کو ملک میں پیسو امیونائزیشن کے لیے سی پی کے کلینیکل ٹرائلز کی اجازت دی تھی۔

وزارت صحت کے ترجمان ساجد شاہ نے چند رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پلازما کی فروخت اور خریداری کا غیر قانونی کاروبار پورے ملک میں جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بدقسمتی ہے کہ کچھ عناصر وبائی امراض اور بحرانوں سے مالی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، عطیہ دہندگان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک انسان کی زندگی بچانا اتنا ہی بہتر ہے جتنا پوری انسانیت کو بچانا‘۔

یہ بھی دیکھیں

رحیم یار خان : دو قبیلوں میں تصادم کے دوران آٹھ افراد جاں بحق

رحیم یار خان:رحیم یار خان کے نزدیک کچھ ماچھک میں دو قبیلوں میں تصادم کے …