جمعرات , 18 اپریل 2024

بے روزگار افراد کی تعداد 21-2020 میں 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ جائے گی

اسلام آباد: مالی سال 21-2020 کے دوران ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد 66 لاکھ 05 ہزار تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ گزرنے والے مالی سال کے دوران اس کی تعداد 58 لاکھ تھی۔

رپورٹ کے مطابق حکومت کے سالانہ منصوبے 21-2020 کے مطابق پاکستان میں دنیا کی نویں بڑی لیبر فورس ہے جو ہر سال بڑھتی جارہی ہے۔

ملازمت یافتہ افراد کی تعداد21-2020 میں 6 کروڑ 92 لاکھ ہوجائے گی جو 20-2019 میں 6 کروڑ 21 لاکھ رہی ہے۔

لیبر فورس سروے 18-2017 کے مطابق آئندہ سال (21-2020 ) کے لیے بے روزگاری کی شرح 9.56 فیصد بتائی گئی ہے۔

پاکستان بے روزگار تعلیم یافتہ افراد خصوصا ڈگری رکھنے والے بے روزگار افراد کا رجحان دیکھا جارہا ہے۔

ڈگری رکھنے والوں میں بے روزگاری کی شرح دیگر مجموعی طور پر بے روزگار افراد کے مقابلے میں تقریبا 3 تین گنا زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دی جانے والی تعلیم اور نئے تعلیم یافتہ افراد کو جزب کرنے کی معیشت کی ضرورت کے درمیان مطابقت نہیں ہے۔

اسی طرح لیبر فورس سروے 18-2017 کے مطابق بے روزگاری میں مردوں کے مقابلے خواتین میں کی شرح زیادہ ہے جو بالترتیب 8.27 فیصد اور 5.07 فیصد ہے۔

اوسطاً بیروزگاری کی شرح کے مقابلہ میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے۔

بیروزگاری کی سب سے زیادہ شرح 11.56 فیصد، 20-24 سال کی عمر والے افراد میں پائی جاتی ہے۔

سالانہ منصوبے میں روزگار کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ معاشرے کے ناقص طبقات میں ترقی کے ثمرات کو تقسیم کرنے کے لیے نتیجہ خیز معاوضے اور مہذب ملازمتوں کی فراہمی بنیادی طریقہ کار ہے، روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، نوجوان نسل کو روزگار کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور نوجوان نسل کی صلاحیتوں کی ترقی اور ان کو بروئے کار لانا بہت ضروری ہے۔

پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی 21 کروڑ 09 لاکھ ہے۔

آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے اس کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ 2030 تک اس کی تعداد 28 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

فی الحال آبادی کا 63 فیصد افراد کی عمر 30 سال سے کم ہے۔

اس وقت نوجوانوں کو روزگار کے لیے صحیح مہارتیں حاصل کرنے میں مدد کرنا معاشی لحاظ سے معنی رکھتا ہے جبکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت تعلیم، روزگار یا تربیت میں نہیں ہے۔

پاکستان کے خصوصی تکنیکی، پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے شعبے میں داخلے بھی کم ہیں جو دونوں صنفوں میں مہارت کی تربیت کی اعلی طلب کے باوجود برقرار ہے۔

نوجوانوں کے روزگار پر صلاحیتوں کے فرق کے نمایاں اثرات سامنے آتے ہے۔

لہذا تعلیم اور ملازمت کے مابین ایک متحرک رشتہ برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

حکومت کا دعوی ہے کہ سالانہ منصوبے میں ہنر کی ترقی پر فوکس کیا گیا ہے جو نوجوانوں کے لیے نتیجہ خیز روزگار کے مواقع فراہم کرے گا۔

پاکستان کی معیشت کورونا وائرس کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

وبائی بیماری کے اس منفی معاشی اثرات مختلف طریقوں سے سامنے آئے جس میں گھریلو طلب میں کمی، کاروباری سرگرمیوں میں کمی، درآمد اور برآمد میں کمی اور سپلائی چین میں خلل کی وجہ سے پیداوار میں کمی شامل ہیں۔

اس کا ایک سب سے اہم اثر روزگار میں کمی کی صورت میں سامنے آیا، افرادی قوت کو اس وقت پریشانیوں کا سامنا ہے، وبائی بیماری نے صحت کے بحران سے لے کر معاشی اور مزدور منڈی کے بحرانوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔

حکومتی دعووں کے مطابق سالانہ منصوبہ اقتصادی ترقی اور اصلاحات کے حکومتی منصوبوں کے وسیع تر فریم ورک کے تحت روزگار کے فائدہ مند مواقع پیدا کرنے پر مرکوز ہے اور ورکرز اور ان کی ملازمتوں کے تحفظ کے لیے کورونا وائرس کے قابل عمل اقدامات کی تجویز دیتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

رحیم یار خان : دو قبیلوں میں تصادم کے دوران آٹھ افراد جاں بحق

رحیم یار خان:رحیم یار خان کے نزدیک کچھ ماچھک میں دو قبیلوں میں تصادم کے …