ہفتہ , 20 اپریل 2024

بحرینی وزیر خارجہ کا الزام

اداراتی نوٹ
بحرین میں اسی کے عشرے میں حکومت مخالف تحریک چلی تھی، جو معروضی حالات کے پیش نظر کچھ عرصہ جاری رہنے کے بعد رک گئی تھی، لیکن چودہ فروری 2011ء کو شروع ہونے والی آمریت مخالف تحریک سخت ترین مشکلات کے باوجود جاری ہے۔ اس تحریک کیخلاف بحرین پر مسلط آلِ خلیفہ حکومت نے گذشتہ نو سالوں میں کونسا حربہ استعمال نہیں کیا۔ حکومت مخالف تحریک کے قائدین کو یا تو زندانوں میں ڈال دیا یا انکی شہریت منسوخ کر کے ملک بدر کر دیا گیا۔ اس تحریک کی دو بڑی شخصیات شیخ سلمان اور آیت اللہ شیخ عیسیٰ قاسم دونوں کو بحرینی عوام سے دور کر دیا گیا ہے، لیکن اسکے باوجود آلِ خلیفہ مخالف تحریک جاری ہے۔ آلِ خلیفہ کی حکومت ہرگز باقی نہیں رہ سکتی تھی، لیکن سعودی عرب کی فورسز اور امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل آلِ خلیفہ کو بچانے کے لیے میدان میں آ گئے، جسکی وجہ سے آلِ خلیفہ حکومت سرنگونی سے بچ گئی۔

آلِ خلیفہ حکومت کو عارضی طور پر بظاہر استحکام نصیب ہوا ہے، لیکن عوامی تحریک کا دباؤ ایک لٹکتی تلوار کیطرح انکے سروں پر گردش کر رہا ہے۔ بحرینی حکمران علاقائی ممالک اور عالمی برادری کی توجہ اس جمہوری، عوامی اور مقامی اقدار کی حامل تحریک سے ہٹانے کے لیے آئے روز نئے نئے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں بحرین کی ڈکٹیٹر حکومت کے وزیر خارجہ نے امریکہ میں ایران ڈیسک کے انچارج برائن ہوک سے ملاقات میں ایران پر بحرین میں مداخلت کا بے بنیاد الزام عائد کیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بحرینی وزیر خارجہ نے ایک ایسے ملک کے عہدیدار کے سامنے غیر ملکی مداخلت کا الزام لگایا ہے، جو سر سے پاؤں تک اس قبیح فعل میں مشغول ہے۔ بحرین کے وزیر خارجہ کا یہ اقدام جہاں بحرین کے داخلی حالات سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا ہے، وہاں بلے سے دودھ کی رکھوالی کا تقاضا کرنا ہے۔

سعودی عرب، بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات خطے میں اپنی من مانی چاہتے ہیں، اس کام کے لیے انہیں داخلی استحکام چاہیے، ان تمام ممالک کے لیے بحرین کی عوامی تحریک ایک مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اگر بحرین میں آلِ خلیفہ حکومت عوامی طاقت کے ہاتھوں شکست کھا کر سرنگوں ہوتی ہے تو ان ممالک کے عوام کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہاں بھی استبدادی حکومتوں کے خلاف عوامی بیداری کی لہر تیز ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران پر الزام لگا کر عوام کی توجہ کو کسی اور طرف مبذول کر دیا جاتا ہے، لیکن بحرین کی تحریک جس تسلسل اور مضبوط عزم و ارادے کے ساتھ چل رہی ہے، اسکا نتیجہ کامیابی کے سوا کچھ نہیں۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …