ہفتہ , 20 اپریل 2024

آیا صوفیہ عجائب گھر کو مسجد میں تبدیل کر کے طیب اردگان سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں؛تجزیہ نگار

ترکی کےاستنبول میں واقع آیا صوفیہ کیتھڈرل کی عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے سے ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔بعض تجزیہ کاروں نے صدر رجب طیب ایردوآن پر اس معاملے میں دوعملی اختیار کرنے کا الزام عاید کیا ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے اپنے ناظرین اور سامعین کے لیے ان کی افتاد طبع کے مطابق بیانات جاری کیے ہیں۔

اردوان جن کا اپنا تعلق بھی استنبول سے ہے اس شہر پر اپنی سیاسی چھاپ کمزور ہوتے نہیں دیکھ پارہے۔ انھیں بلدیاتی انتخابات میں شکست دینے والے مخالفین کا کہنا ہے کہ طیب اردوان کی جانب سے آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں بحال کرنے کا مدعا مذہبی سے زیادہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے۔کیونکہ جب اردوان صاحب پورے ایک عشرے تک استنبول کے مئیر رہے تب انھیں آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں بدلنے کا خیال نہیں آیا۔ پچھلے بیس برس سے ان کی جماعت ترکی پر بلا وقفہ مسلسل حکمرانی کر رہی ہے۔اس دوران بھی وہ چاہتے تو یہ کام کر سکتے تھے۔مگر اس جانب ان کا دھیان تب ہی گیا جب گزشتہ برس استنبول سیاسی طور پر ہاتھ سے نکل گیا۔

یونیسکو نے آیا صوفیہ کی عمارت کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔اس کو چھٹی صدی عیسوی میں آرتھو ڈکس عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔1453ء میں جب عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ (اب استنبول) شہر کو فتح کیا تھا تو آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔

جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال پاشا نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد 1934ء میں آیا صوفیہ کو ایک عجائب گھر میں تبدیل کردیا تھا لیکن جمعہ کو ترکی کی ایک عدالت نے آیا صوفیہ کی عجائب گھر کی حیثیت کالعدم قرار دے دی ہے جس کے بعد صدر رجب طیب ایردوآن نے اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ان کے اس فیصلے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور ترکی کے اندر اور بیرون ملک سے صدر ایردوآن کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تاہم ترکی کی حکمران جماعت اور صدر کی حامی تنظیمیں اور الاخوان المسلمون ایسی جماعتیں اس فیصلے کی حمایت کررہی ہیں۔

صدر ایردوآن کی دوغلی پالیسی پر تنقید
صدر ایردوآن نے آیا صوفیہ کی مسجد میں تبدیلی کے بارے میں عربی اور انگریزی زبانوں میں اپنے دست خط شدہ الگ الگ بیانات جاری کیے ہیں جس کی وجہ سے نئی بحث چھڑی ہے اور انھیں تنقید کا سامنا ہے۔

ترک صدر کے دفتر نے عدالت کے فیصلے کے بعد یہ دو الگ الگ بیانات جاری کیے ہیں اور ان میں آیا صوفیہ کی مسجد میں تبدیلی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن انگریزی اور عربی بیان کے متون میں فرق ہے۔

انگریزی متن میں مصالحانہ انداز اختیار کیا گیا ہے اور انسانیت کے مشترکہ ورثے کی بات کی گئی ہے جبکہ عربی متن عثمانی سلطان محمد دوم کے وعدے کی تکمیل کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ’’آیا صوفیہ کی بحالی مسجدالاقصیٰ (مقبوضہ بیت المقدس) کی آزادی کی طرف لوٹنے کی علامت ہے۔‘‘

ٹویٹر پر بہت سے تبصرہ نگاروں نے یہ نشان دہی کی ہے کہ ’’دو مکمل طور پر متضاد بیانات جاری کیے گئے ہیں۔عربی متن میں صدر ایردوآن نے اپنے عرب حامیوں کو لبھانے کی کوشش کی ہے جبکہ انگریزی بولنے والوں کے لیے جاری کردہ بیان میں مصالحانہ انداز اختیار کیا ہے۔‘‘

لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلق رکھنے والی جہینہ آل علی ٹویٹر پر لکھتی ہیں:’’دو مکمل طور پر متضاد بیانات۔ایردوآن نے انگریزی میں ’’تمام کے لیے کھلی‘‘ اور ’’انسانیت کا مشترکہ ورثہ‘‘ایسے محاورے استعمال کیے ہیں۔عربی زبان میں انھوں نے کسی سلطان کا سا انداز اختیار کیا ہے جس کا مقصد اپنے مداحوں کو لبھانا اور انتہا پسندانہ نظریے اور عمل کو مہمیز دینا ہے۔‘‘

https://twitter.com/JuhainaAlAli/status/1281891311273021440

بعض ناقدین نے یہ بھی نشان دہی کی ہے صدر ایردوآن نے ترکی کی اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں اضافہ کردیا ہے جبکہ وہ مسجد الاقصیٰ کو آزاد کرانے کا دعویٰ بھی کررہے ہیں۔

صدر ایردوآن نے خود اس تنقید کو مسترد کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ آیا صوفیہ پر ترکی کی خود مختاری ہے۔تاہم ان کے اس فیصلے کو ناقدین نے ترکی کے سیکولرازم پر حملہ قراردیا ہے۔امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ترک عدالت کے فیصلے پر یہ سرخی جمائی ہے:’’سیکولر ترکی کی علامت دوبارہ ایک مسجد کے طور پرکھلے گی۔‘‘

امارات سے تعلق رکھنے والے تبصرہ نگار سلطان سعود القاسمی نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’’اس قابل افسوس اقدام سے جناب صدر نے استنبول کو ثقافتی طور پر غریب کردیا ہے۔استنبول میں اس وقت 3000 سے زیادہ مساجد ہیں۔آیا صوفیہ ایک عمارت کے سِوا مختلف عقائد کے درمیان اتحاد کی بھی علامت ہے۔‘‘

واضح رہے کہ امریکا نے ترک صدر طیب ایردوآن پر زوردیاتھا کہ وہ استنبول میں واقع تاریخی مگر سابق کیتھڈرل آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل نہ کریں اور اس کو تمام لوگوں کے لیے کھلا رہنے دیں۔

دنیا کی آرتھوڈکس عیسائی برادری کے روحانی پیشوا ایکومینیکل پیٹریاک بارتھو لومیو نے بھی خبردار کیا تھا کہ استنبول میں چھٹی صدی کے تعمیر شدہ کیتھڈرل آیا صوفیہ کی دوبارہ مسجد میں تبدیلی تقسیم کے بیج بونے کے مترادف ہوگی۔

انھوں نے عدالت کے فیصلے سے قبل کہا تھا کہ ’’ آیا صوفیہ کی مسجد میں تبدیلی سے دنیا بھر میں بسنے والے کروڑوں عیسائیوں کو شدید مایوسی ہوگی۔‘‘ پیٹریاک بارتھو لومیو استنبول ہی میں رہتے ہیں اور وہ دنیا بھر کے قریباً تیس کروڑ آرتھوڈکس عیسائیوں کے روحانی پیشوا ہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …