جمعرات , 25 اپریل 2024

ایران چین معاہدہ عالمی نظام میں امریکی پوزیشن کے لئے سخت دھچکا ہے؛ امریکی بزنس میگزین

تحریر: امریکی بزنس میگزین فوربِس سے ترجمہ

فوربِس نے چین ایران معاہدے کو مغربی ایشیاء میں امریکی پوزیشن اور عالمی نظام میں امریکا کے لیے ایک شدید دھچکا کہا قرار دیا ہے۔فوربِس نے 25 سالہ ایران چین معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تہران اور بیجنگ نے حال ہی میں سیاسی اور معاشی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے 25 سالہ معاہدے پر دستخط کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ معاہدے کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہیں تاہم یہ واضح ہے کہ یہ ایران کا مشرق کی طرف ایک بڑا قدم ہےرپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس طرح کے معاہدے سے مغربی ایشیاء میں امریکی پوزیشن مزید کمزور ہوگی۔ واشنگٹن کے لئے ، جو پہلے ہی ایران – P5 + 1 جوہری معاہدے سے دستبردار ہوچکا ہے اور اب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو بھی چھوڑ چکا ہے یوںواشنگٹن بین الاقوامی نظام میں دھندلا دیکھائی دینے لگا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی بار ، عالمی سطح پر امریکی قیادت کا کردار کم ہوتا جارہا ہے۔ اور حالیہ برسوں میں بین الاقوامی میدان میں کئی رجحانات امریکہ کے نقصان اور چین کے فائدے میں بدل گئے ہیں۔حالیہ امریکی خارجہ پالیسی کا آغاز امریکی ٹیرف اور اتحادیوں اور چین کے ساتھ تجارتی جنگوں سے ہوا۔ پہلے وہ واشنگٹن پیرس کلائمٹ معاہدے سے دستبردار ہوگیا ، ٹرانس پیسیفک معاہدے سے دستبردار ہوگیا ، ایران جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگیا، خود کو نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) سے خود کو دور سمجھتا ہے اور اب وہ نارتھ امریکا فری ٹریڈ(نفاٹا) کو بھی مسترد کرتا ہے۔

امریکی تجارتی تناؤ اور درآمدی پابندیوں کے نتیجے میں ، امریکی کمپنیوں نے نئے سپلائرز اور صارفین کی تلاش شروع کردی۔
جبکہ دوسری جانب دوسرے ممالک نئے تجارتی معاہدوں کی تلاش میں ہیں جیسے یورپی یونین کے ساتھ جاپان کا تجارتی معاہدہ۔ ٹرانس پیسیفک آرگنائزیشن کا ریاستہائے متحدہ کے بغیر کام جاری رکھنا اور ساتھ میں چین نے اپنے عالمی ایجنڈے کو مستحکم کرنے میں بھی تیزی لائی ہے

اس امریکی بزنس میگزین کا کہنا ہے کہ جیسے ہی امریکہ دنیا سے دستبردار ہوتا جا رہا ہے بین الاقوامی نظام میں چین کا مقام مزید مستحکم ہو گیا ہے۔ ایران کے ساتھ چین کے 25 سالہ معاہدے سے مغربی ایشیاء کی اپنی پوزیشن مستحکم ہوگی ہے۔” چینی کمپنیاں افریقہ میں سب سے بڑے سرمایہ کار ہیں اور انہوں نے لاطینی امریکہ میں 140 بلین سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ چین نے ایشیاء اور یورپ میں بھی سرمایہ کاری کی ہے اور ون بیلٹ ون روڈ کا نام بدل کر ، شاہراہ ریشم کو بحال کرنے کے درپے ہے۔ اس نے بجلی ، سڑکیں ، پل ، قدرتی وسائل اور بندرگاہوں جیسے اہم انفراسٹرکچر میں بھی بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ پسماندہ ہے اور اسی وجہ سے وہ معاشی فوائد سے محروم ہے۔

فوربِس کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کی وجہ سے ریاستہائے متحدہ امریکا سمیت دوسرے ممالک ایک دوسرےسے دور ہوئے ہیں ، کورونا وائرس نے امریکہ پر بھی شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کئی ممالک کی طرح امریکہ میں بھی بین الاقوامی سفر پر پابندی ہے۔اس کی وجہ سے بیرون ملک سے سامان اور خام مال کی فراہمی میں امریکی کمپنیوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اسی طرح امریکی سامان کے لئے صارفین کو تلاش کرنے میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دوسرے ممالک کے برعکس ، ریاستہائے متحدہ عالمی کثیرالجہتی تنظیموں کے ساتھ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے کام نہیں کرتا ہے۔وہ حال ہی میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے دستبردار ہوگیا ہے اور کورونا ویکسین سے متعلق بین الاقوامی اجلاس میں شریک نہیں ہوا ہے۔ یوروپی ممالک کورونا وائرس سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے لئے ایک ٹریلین ڈالر کی اقتصادی امداد فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور چین جیسے ملک نے پہلے ہی کورونا وائرس سے لڑنے کے لئے 2 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔

بشکریہ فوربِس

یہ بھی دیکھیں

تحریک نینوا کے امین زین العابدین علیہ السلام

(تحریر: مولانا گلزار جعفری) شہر عشق و شغف جسکی گلیوں سے کملی والے سرکار کی …