بدھ , 24 اپریل 2024

جمال بومین اسرائیل مخالف امریکی ڈیموکریٹک باغی؟

تحریر: محمد سلمان مہدی

یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی داخلی سیاست کے لحاظ سے ایک خبر کو بہت بڑی خبر کے طور پر جمعہ 17 جولائی 2020ء کو پیش کیا گیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک خبر کے مطابق جمال بومین نے امریکی مقننہ کے ایوان زیریں یعنی ایوان نمائندگان کے مسلسل 16 مرتبہ رکن منتخب ہونے والے ایلیٹ اینجیل کو ڈیموکریٹک پرائمری (انتخابی مرحلے) میں شکست دے دی۔ امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ نے دنیا کے سامنے 44 سالہ جمال بومین نامی اس سیاہ فام امریکی کو اسرائیل کے کٹر مخالف کی حیثیت سے پیش کیا، جبکہ ان کے حریف 73 سالہ ایلیٹ اینجیل نامی سفید فام امریکی یہودی کو ولن بنا کر پیش کیا۔ ایلیٹ اینجیل نے 1988ء سے رکن ایوان نمائندگان کی حیثیت سے اور خاص طور پر ایوان نمائندگان کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے اسرائیل کے مفاد میں قانون سازی کی حمایت کی اور امریکی خارجہ پالیسی کو اسرائیلی مفاد کے تابع رکھنے میں فعال کردار ادا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ سرسری جائزہ لینے والوں کو جمال بومین کی جیت میں اسرائیل کی شکست نظر آئی، لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے!؟

میڈیا نے یہ تاثر قائم کیا کہ دونوں کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ضرور ہے، لیکن دونوں کے بعض سیاسی نظریات خاص طور پر امریکا کی اسرائیل نواز خارجہ پالیسی پر دونوں کے نظریات مختلف ہیں۔ نیویارک کے انتخابی ضلع نمبر16 سے ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے امیدوار بننے کے لئے پرائمری انتخابی مرحلے کے لئے ووٹنگ 23 جون 2020ء کو ہوئی۔ البتہ براہ راست ووٹوں کی گنتی میں جمال بومین پہلے ہی جیت چکے تھے اور 17 جولائی کو ڈاک کے ذریعے ووٹوں کی گنتی کی بنیاد پر حتمی طور پر جمال بومین کی جیت کا اعلان کر دیا گیا۔ ایلیٹ اینجیل نے اپنی شکست تسلیم کرلی، یعنی 1988ء سے 2018ء تک ہر دو سال بعد ہونے والے ایوان نمائندگان کے انتخابات میں وہ نیویارک انتخابی ضلع 16 سے رکن کانگریس منتخب ہوتے رہے، لیکن اب وہ امیدوار بننے کا بنیادی انتخابی مرحلہ ہی ہار چکے ہیں۔

جمال بومین کو ان کی ماں نے پالا ہے۔ ان کے پروفائل میں ان کے باپ دادا کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ ماں اور دادی سے متعلق معلومات ہیں۔ ان کا بچپن اور لڑکپن امریکی سفید فام نسل پرستی کے امتیازی سلوک اور ناانصافیوں کو جھیلتے گذرا۔ اس لئے انہوں نے ان ناانصافیوں اور نسل پرستانہ امتیازات کی مخالفت پر مبنی جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا۔ تعلیم میں ڈاکٹریٹ جمال بومین ایک مڈل اسکول کے پرنسپل رہ چکے ہیں۔ ان کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق نیویارک ٹائمز نے بھی ان کے امیدوار بننے کی حمایت کی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی اس معاملے میں واضح طور پر منقسم نظر آئی۔ ڈیموکریٹک میجارٹی فار اسرائیل نام کی پولیٹیکل ایکشن کمیٹی نے جمال بومین کے خلاف اشتہار میں انہیں ٹیکس نادہندہ لکھا تھا۔ اس پر ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں بازو دھڑے نے ان کی شدید مخالفت کی تھی اور ایلیٹ اینجیل کی مہم چلانے والی کمیٹی نے مذکورہ اسرائیل نواز پولیٹیکل ایکشن کمیٹی سے اس اشتہار کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ البتہ ڈیموکریٹک پارٹی کے پروگرویسیو قرار دیئے جانے والے رہنماؤں میں برنی سینڈرز، خاتون رہنما ایلزبتھ وارن اور الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز بھی جمال بومین کی حمایت کر رہے ہیں۔

گو کہ بعض حلقے جمال بومین کو فلسطینیوں کا حامی قرار دیتے ہیں اور پرائمری مرحلے میں انہیں باغی رہنماء بھی لکھا گیا، لیکن جمال نے اپنے انتخابی ضلع کے اسرائیل نواز فعال رہنماء ریبائی ایوی ویئس کو بتایا کہ وہ اسرائیل مخالف بی ڈی ایس مہم کی مخالفت کرتے ہیں۔ ماضی میں انہیں اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والی مہم کا حامی سمجھا جاتا تھا، لیکن اس مرتبہ انہوں نے پہلی مرتبہ خود یہ کہا ہے کہ وہ اس بی ڈی ایس مہم کے مخالف ہیں۔ البتہ فلسطینیوں کے معاملے کو وہ اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ جس طرح امریکی پولیس سیاہ فام شہریوں پر بے دریغ تشدد کرتی ہے، اسی طرح مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو اسرائیلی فوجیوں کے ایسے ہی رویئے کا سامنا ہے۔ اسرائیل کے حامی یہودی پیشوا نے جمال بومین پر الزام لگایا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ دہرا معیار رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کھلا خط لکھا۔ جمال بومین نے اس خط میں اسرائیل کی سکیورٹی اور حفاظت کی حمایت کی، حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کو انتہاء پسند قرار دیا اور ان کی وجہ سے اسرائیل کی سکیورٹی کو لاحق چیلنجز سے نمٹنے کے لئے امریکا کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل مدد کی حمایت کی۔

یہ ہیں وہ جمال بومین کہ جن کو امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کا مخالف اور فلسطینیوں کا دوست اور حامی مشہور کر رکھا ہے۔ حالانکہ امریکی پارلیمانی سیاست کے حوالے سے وہ بالکل نو آموز ہیں۔ افریقی نژاد امریکیوں سے نسل پرستانہ امتیازی سلوک کے خلاف موقف کی حد تک تو ان کا کردار قابل فہم ہے، لیکن خارجہ پالیسی کے ایشوز پر اور خاص طور پر اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات کے حوالے سے نہ تو وہ باغی سیاستدان ہیں اور نہ ہی فلسطین کے حق میں اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والی مہم کے حامی۔ فرض کر لیں کہ اگر وہ بی ڈی ایس مہم کے حامی بھی ہوتے۔ فرض کر لیں کہ اگر وہ اسرائیل کو ایک جعلی ریاست قرار دینے والے رہنما ہوتے، تب بھی وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی وضع کردہ اسرائیل نواز خارجہ پالیسی کے خلاف کچھ بھی نہ کر پاتے، لیکن مقام فکر ہے کہ اسرائیل کی سکیورٹی کے لئے امریکی مدد کی حمایت میں حماس سمیت فلسطینی گروہوں کو انتہاء پسند و دہشت گرد قرار دینے والے اس جمال بومین کو میڈیا میں فلسطین دوست رہنماء کے طور پر کیوں پیش کیا جاتا رہا۔

اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس کے پرائمری مرحلے میں جیت جانے کو اور ایلیٹ اینجل کی شکست کو امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ نے یوں پیش کیا گویا امریکا کی اسرائیل نواز خارجہ پالیسی تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے اس جیت کو یوں پیش کرنے کی کوشش کی گویا اسرائیل کو شکست ہوگئی، جبکہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایلیٹ اینجل کی عمر 73 برس ہے اور وہ مسلسل 32 برس اس انتخابی ضلع سے رکن کانگریس ہیں۔ امریکا میں الیکشن ماہ نومبر میں ہوتے ہیں۔ اگر کورونا وائرس کی وجہ سے الیکشن موخر یا ملتوی نہ ہوئے تو نومبر 2020ء میں عام انتخابات ہوں گے اور ساتھ ہی صدارتی الیکشن بھی۔ جمال بومین نے نیویارک کے ایک حلقے سے ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار بننے کا پرائمری مرحلہ جیتا ہے نہ کہ رکن کانگریس کا انتخابی معرکہ۔ دوسرا یہ کہ ایوان نمائندگان میں اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کو حاصل ہوگی یا ری پبلکن کو، یہ بھی ابھی واضح نہیں ہے۔ فرض کر لیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی ہی کو اکثریت حاصل ہو جائے، تب بھی یہ واضح نہیں کہ جمال بومین ہی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین بنائے جائیں گے۔

لیکن جمال بومین کے نام سے اور اس چھوٹی سی کامیابی سے امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ نے پوری دنیا میں امریکی معاشرے کا سافٹ امیج بنانے کی ایک کوشش ضرور کی ہے۔ یعنی نام سے عرب مسلمان ایک افریقی نژاد امریکی سیاہ فام ایک تجربہ کار بوڑھے یہودی سیاستدان سے جیت گیا۔ لیکن اس کی جیت سے سیاہ فام امریکی شہریوں نے کیا حاصل کر لیا!؟ جمال بومین کی اس کامیابی سے امریکی مسلمان و عرب کو یا فلسطینیوں کو کیا ملا!؟  کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ جب ایک نیم سیاہ فام باراک اوبامہ دو مرتبہ امریکی صدر منتخب ہوکر امریکا کی نسل پرستانہ داخلی سیاست اور اسرائیل نواز خارجہ پالیسی کو تبدیل نہیں کرسکا تو جمال بومین جیسا مقامی سطح کا ایک ماہر تعلیم اتنی بڑی تبدیلی کیوں کر لاسکتا ہے، جبکہ وہ تو لفاظی کی حد تک بھی اس تبدیلی کی حمایت کرنے سے گریزاں ہے۔ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا اصل چہرہ یہی ہے، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں دنیا دیکھ رہی ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں سے یکطرفہ دستبرداری، دیگر ممالک کی مخالفت کے باوجود وہاں فوجی اڈے بنا کر قابض رہنا اور اسرائیل کے دفاع اور تحفظ میں امریکی قوم کو ذلیل و رسوا کروانا، امریکی اسٹیبلشمنٹ کی یہی پالیسی امریکا پر حاکم تھی اور ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ جمال بومین کے امریکا کی خارجہ پالیسی بھی وہی ہے، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کی ہے۔ اسرائیل کی ہر قیمت پر مدد ان کے مابین قدر مشترک ہے۔ لیکن ماننا پڑے گا کہ امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ کامیاب سیلز مین ہیں۔ ایک چھوٹے سے ناتجربہ کار نوآموز انتخابی امیدوار برائے کانگریس کو دنیا کے سامنے اس انداز میں پیش کیا گویا جمال بومین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی الیکشن میں بہت بڑے مارجن سے شکست دے دی ہو۔ دنیا کے انسان خواب غفلت سے بیدار ہوکر اس حقیقت کا سامنا کریں کہ امریکا میں جمال بومین اگر صدر بھی بن جائے، تب بھی فلسطینیوں کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے مقبوضہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے۔ شام کے علاقے جولان پر ناجائز سرائیلی قبضے کو جائز تسلیم کر لیا ہے اور اب ڈیل آف دی سینچری کے بہانے یونین کاؤنسل اختیارات کے حامل مغربی کنارے کے بچے کھچے حصے پر بھی اسرائیلی قبضے کی تیاریاں مکمل ہیں اور ان سارے غیر قانونی اقدامات کو عملی جامہ پہنچانے کے لئے جمال بومین کے ملک امریکا نے اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے مدد کی ہے اور نام بدنام ہے حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کا جنہیں جمال بومین بھی انتہاء پسند کہتے ہیں۔ جمال بومین نہ تو فلسطین دوست ہیں اور نہ ہی ڈیموکریٹک پارٹی کے باغی امیدوار بلکہ وہ روایتی اسرائیل نواز امریکی بیانیہ کے حامی ہیں۔ اس لئے فلسطین کے حامیوں کو ایسے امریکیوں کے سافٹ امیج سے خبردار رہنا چاہیئے۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …