جمعہ , 19 اپریل 2024

سعودی عرب کے تعاون سے چلنے والے ’’ایران انٹرنیشنل اور ’’بی بی سی فارس‘‘ ایران چین معاہدے کے خلاف سرگرم

رپورٹ:

امریکا ، سعودی عرب، اسرائیل اور برطانیہ کے مالی تعاون سے چلنے والا فارسی زبا ن کے بین الاقوامی’ ٹی وی چینل ایران چین معاہدے کو نشانہ بنا رہے ہے۔ایران دشمن ممالک کے زیر انتظام چلنے والے فارسی زبان کے ایران انٹر نیشنل ٹی وی چینل اوربی بی سی فارس نے تہران اور بیجنگ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے خلاف ایرانی عوام کو احتجاجی ریلیوں پر اکسانے کے لئے گزشتہ دو ہفتوں میں ایک زبردست مہم چلائی ہوئی ہے۔

دوسری جانب ٹویٹر اور انسٹاگرام میں سوشل میڈیا صارفین اور ایران کے شہری گلی،محلوں اور ہوٹلوں سمیت دیگر مقامی مقامات پر گذشتہ دنوں سے تہران اور چین کے مابین طویل مدتی تعاون کے معاہدے کے مسودے کے بارے میں بات چیت میں مصروف ہیں جس پر ایرانی اور چینی حکام کے درمیان مذاکرات ابھی تک مکمل نہیں ہوئے ہے اورمذکرات کے بعد ہی اس کی توثیق کی جانی ہے۔چین اور ایران کا اس معاہدے پر اتفاق کے بعد اس معاہدے کے مستقبل کا فیصلہ ایران کی پارلیمنٹ کریگی۔اس کے باوجود ، کچھ غیر ملکی میڈیا اداروں نے اس معاہدے کو خفیہ معاہدے کے طور پر ظاہر کرنے کے لئے پوری کوشش کی ہے ، جب کہ چین کے صدر نے 2016 میں اپنے دورہ ِ ایران کے دوران ایران کے ساتھ اس معاہدے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔چینی صدر نے اس وقت رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات میں 25 سالہ طویل معاہدے پر بات کی تھی۔تاہم عالمی ماہرین معیشت،سیاست ،مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور چین کے مابین پچیس سالہ اسٹریٹجک تعلقات پر مبنی معاہدہ مکمل طور پر درست اور ایک دنشمندانہ فیصلہ ہے۔

اُدھر ایران مخالف بین الاقوامی میڈیا ایران کے اندر انتشار اور ایرانی عوام کو اس معاہدے سے بد ظن کرنے کے لیے یہ افواہیں پھیلا رہا ہے کہ ایران اپنے جزیروں بالخصوص جزیرہ کیش کو چین کے حوالے کر رہا ہے اور چین کی آرمی کو ایران میں تعینات کر رہا ہےتاہم ایران نے سرکاری طور پر یہ اعلان کیا ہے ایران اور چین کے معاہدے کے بارے میں جو افواہیں پھیلائی جاری ہے وہ افواہیں ہے حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران اپنی سرزمین سے ایک انچ بھی چین کے حوالے نہیں کر رہا ہے۔

اگرچہ جدید تاریخ سمیت تاریخ میں بہت سارے ترقی یافتہ ممالک سمیت ریاستوں کے مابین اس طرح کے بہت سے طویل مدتی معاہدے ہوئےہیں تاہم ایران اور چین کے درمیان ہونے والے اس اعظیم معاہدے کے خلاف شاہ ایران کی اولاد نے بیرون ملک بیٹھ کر میڈیا ، خاص طور پر سعودی مالی اعانت سے چلنے والا بی بی سی فارس، ایران انٹرنیشنل اور امریکی محکمہ خارجہ کے ذریعے افواہیں پھیلانا شروع کردی اور اس معاہدے کو معاہدہ تورکمانچہ معاہدہ کا نام دےکر ایرانی عوام میں بدگمانی بڑھانی شروع کر دی ہے۔تورکمانچہ معاہدے کی تاریخ یہ ہے کہ سن (1826-1828)میں روسی بادشاہ اور ایرانی بادشاہ کے درمیان ایک جنگ ہوئی جس میں ایران کے بادشاہ نے شکست کے بعد 10فروری 1828کو ایران کے شہر تورکمانچیا میں ایران اور روس کے بادشاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ایران نے جنوبی قفقاز کے متعدد علاقوں کو روس کے حوالے کر دیا تھا۔

اُدھر انگریزی زبان کے مغربی ذرائع ابلاغ نے چین اور ایران کے درمیان ہونے والے اس معاہدے پر واشنگٹن کو سخت انتباکیا ہے کہ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو پھر اس سے امریکا کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔اور اس سے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ایران مخالف لابی نے اس معاہدے کے خلاف شروع کی گئ مہم کو تیز کر دیا ہے اور فارسی زبان کے ٹوئٹر اکائونٹ میں اس معاہدے کا نام تورکمانچہ رکھا ہے ، فارسی زبان کی ویب سائٹوں، سیٹیلائٹ چینلز، سرکاری چینلز سمیت تمام سوشل میڈیا کو متحرک کر دیا ہے اور ٹیلیگرام چینلز میں چین کے خلاف ایرانی عوام کو اکسارہے ہیں۔

دوسری جانب ایران میں موجود ایران مخالف بین الاقوامی ٹی وی اور ریڈیو نے ایران کے اندر عوام کو بھڑکانے کی کوششوں میں مرکزی کردار داد کیا ہے اور عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی بھی ترغیب بھی دی جا رہی ہے۔ایران میں موجود ایران مخالف میڈیا اور ایران مخالف مسلح گروہ ،ایران کے باغی بادشاہ پہلوی رجیم کے بیٹے ، رضا پہلوی اور پہلوی کے حامی راہنما جنہیں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان فنڈ کر رہا ہے ۔ریاض کے ساتھ مجاہدین خلق آرگنائزیشن کے دہشت گردوں کے طویل عرصے سے گہرے تعلقات ہے۔سعودی خفیہ ادارے کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنےوالے بدنام زمانہ علی رضا نور یزادحی نے ایک ٹی وی اور ریڈیو انٹرویومیں ایران چین معاہدے کے خلاف عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سٹرکوں پر نکلے اور ایران کو چین کے ہاتھوں فروخت ہونے کا انتظار نہ کریں۔جبکہ ایران چین اسٹریٹجک تعاون سے متعلق مسودے کو ماہرین اور تجزیہ کار دونوں ممالک کے لئے وسیع اقتصادی فوائد سے لطف اندوز ہونے کا موقع سمجھتے ہیں اور امریکہ ، برطانیہ اور سعودی عرب کے منصوبوں کو ناکارہ بنانے کے لئے ایک بڑی پیش قدمی کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ لہٰذا سعودی عرب، برطانیہ اور امریکا اپنے میڈیا کے ذریعے تہران اور بیجنگ تعلقات میں توسیع کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

ایران انٹرنیشنل اور بی بی سی فارس کی جانب سے صرف انسٹاگرام ، ٹویٹر اور ٹیلیگرام اکاؤنٹس (اپنی ویب سائٹ ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں سے کے علاوہ) پر جاری کردہ خبروں اور سوشل میڈیا پوسٹوں پر نظر ثانی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کل 126 پوسٹوں میں سے 87 پوسٹوں کو ایران انٹرنیشنل نے ایران چین معاہدے کے خلاف اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پرلگائے ہے۔ ایران انٹر نیشنل نے اپنے ٹوئٹر پر بھی ایران چین معاہدے کے خلاف 41 پوسٹیں لگائی ہے۔ نیز ، بی بی سی فارس نے مذکورہ 10 دنوں کے دوران تینوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 61 پوسٹیں جاری کی ہیں ، ان میں سے 34 تہران اور بیجنگ کے مابین اسٹریٹجک معاہدے کے خلاف ہیں۔اس دوران ، العربیہ نیوز چینل کی فارسی سروس جسے سعودیوں نے بھی مالی اعانت فراہم کی ہے ، گذشتہ دو ہفتوں میں اس معاہدے کے بارے میں افواہوں کو پھیلانے اور اس کے مندرجات کو غلط ثابت کرکے ایرانی سامعین میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ معاہدے کے مندرجات کے بارے میں یہ سارے دعوے اس وقت سامنے آئے ہیں جب تہران نے دستاویز کے مندرجات کو باضابطہ طور پر جاری ہی نہیں کیا ہے۔اب تک ایران چین معاہدے کا مسودہ ایران کی پارلیمنٹ سے منظور ہی نہیں ہوا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی حتمی منظوری کے بعد ہی اس مسودے کے مندرجات کو عوام کے سامنے لایا جائے گا۔

سعودی ذرائع ابلاغ العربیہ ایک باضابطہ طور پر سعودی عرب میں چلنے والا میڈیا ہے جو اپنے عربی ایڈیشن کے لئے جانا جاتا ہے ، لیکن ایران انٹرنیشنل کے ساتھ معاملہ بالکل مختلف ہے کیونکہ یہ ایک فارسی زبان کا میڈیا ہے جس کا مقصد براہ راست ملک کے اندر ایرانی عوام کو متاثر کرنا ہے۔ایران انٹرنیشنل کا ایجنڈا سعودی خدمات انجام دینا ہےاور یہ اس وقت ایران کیخلاف سرگرم عمل ہے۔ ایران انٹرنیشنل سعودی عرب کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کی جانبدارانہ رپورٹنگ کرتا ہے اور ان کی تشہیر کرتا ہے ۔ سعودی عرب کا حمایت یافتہ گروہ اہواز جس نے ماضی قریب میں اہواز شہر میں ایرانی فوج کے ایک پریڈتقریب میں فائرنگ کی تھی جس میں معصوم شہری شہید ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں ایران انٹرنیشنل نے رواں ہفتے کے جمعے کو برسلز میں منعقدہ دہشت گرد گروہ کے سالانہ اجلاس میں ایم کے او ، رہنما مریم راجاوی کا مکمل خطاب نشر کیا۔ ایم کے او کے سالانہ اجلاسوں میں سعودی اعلی عہدیدار ہمیشہ شریک ہوتے ہیں۔ سعودی جنرل انٹلیجنس ڈائریکٹوریٹ (GID) کے سابق ڈائریکٹر ترکی الفیصل ،سن 2016 میں پیرس میں ایم کے او کے سالانہ اجتماع میں شریک ہوئے تھے ، جہاں اس نے گروپ کی اعلی خفیہ معلومات کا انکشاف کیا تھا اور دہشت گرد گروپ کے سرغنہ کو یاد کیا تھا۔ مرحوم راجاوی نے دو مرتبہ یہ انکشاف کیا کہ مریم کے شوہر مسعود راجا ، جو گذشتہ کئی دہائیوں سے گروپوں کی سربراہی کر رہے تھے ، ہلاک ہوگئے ہے۔ہفتے کے روز ، لندن میں ایرانی سفیر حامد بیدی نجد نے ایم کے او کے سالانہ اجلاس کی کوریج کے لئے سعودی نواز ایران انٹرنیشنل کی سرتوڑ کوششوں کا ذکر کیا ہے ۔ایم کے او سعودی نواز وہ دہشت گرد تنظیم ہے جنہوں نے ایران کے اندر بارہ ہزار ایرانی شہریوں کو شہید کیا ہے۔

1960 کی دہائی میں قائم ہونے والی ایم کے او نے اسلام پسندی اور اسٹالن ازم کے عناصر کو ساتھ ملا کر اپنا ایک نظریہ بنا لیا ہے اور 1979 میں امریکہ کے حمایت یافتہ شاہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹنے میں حصہ بھی لیا تھا۔ انقلاب کے بعد ایم کے او نے ایرانی اور مغربی دونوں اہداف کے خلاف حملے کیے ہے۔ایران میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے قیام کے بعد اس گروپ نے شہریوں اور عہدیداروں کے قتل کا آغاز کیا۔ انقلاب کے ابتدائی برسوں میں اس نے ہزاروں ایرانی شہریوں اور متعدد نئے رہنماؤں کو شہید کیا ۔1981 میں ایم کے او کےدہشت گردوں نے اس وقت کے صدر ، محمد علی راجائی ، وزیر اعظم ، محمد جواد باہونار اور جوڈیشل چیف ، محمد حسین بہشتی کو شہید کیا تھا ۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …