ہفتہ , 20 اپریل 2024

بچوں کی ذہنی صلاحیت و دماغی نشوونما تیز کرنے کے طریقے

آپ کا بیٹا ہمارے اسکول کے لیے ذہنی طور پر ‘مناسب’ نہیں ہے،’ اسکول انتظامیہ کی طرف سے یہ الفاظ سن کر تھامس ایڈیسن کی ماں کی جو حالت ہوئی ہوگی اسے محسوس کرنے کے لیے زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں۔لیکن اس کے باوجود ایڈیسن کی ماں نے ان بے رحم الفاظ کے اثرات اپنے بیٹے تک منتقل نہ ہونے دیے بلکہ 16 سال کی عمر تک گھر میں ہی سیکھنے سکھانے پر تحرک اور مثبت ماحول کے ذریعے ایڈیسن کو تاریخ کے چند ذہین ترین موجدوں میں سے ایک بنا دیا۔

یاد رکھیں کہ چھوٹے بچوں کے دماغ کی نشو و نما بہت تیزی سے ہو رہی ہوتی ہے، اس دوران میں والدین اور اردگرد کے افراد کا رویہ بچوں میں اہم دماغی رابطے بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جو مستقبل میں ان کی سیکھنے کی استعداد کو بتدریج بہتر کرتا ہے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین یا بچوں کی نشو و نما میں کردار ادا کرنے والے افراد چند اہم باتوں کو سمجھیں، سیکھیں اور ان پر عمدرآمد کی دل سے کوشش کریں۔سب سے پہلے یہ جانیں کہ دماغی نشو و نما کے لیے درکار لوازم کیا ہیں؟ اور انہیں کیسے پورا کیا جا سکتا ہے؟

اس اہم سوال کے جواب میں درج ذیل دیے گئے نکات کچھ مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

صحت مند تعلقات

ایک بڑھتے ہوئے دماغ کے لیے سب سے اہم چیز اپنے ارد گرد کے لوگوں سے مثبت اور صحت مندانہ تعلقات ہیں، ایسا ہر تعلق بچوں کے دماغ میں با اعتماد، پیار بھرا اور تحفظ سے بھرپور رابطے کی پائیدار بنیاد رکھ رہا ہوتا ہے۔

مثبت تجربات

بچوں کو آزادی سے تجربات کی اجازت دینے سے ان کے دماغ کے نیورونز یعنی خلیات تیزی سے اپنے راستے بناتے اور بچے کو اوسط سے انتہائی ذہانت کی طرف لے جاتے ہیں، یہ تجربات عملی بھی ہو سکتے ہیں، جسمانی اور ذہنی بھی۔

سازگار اور محفوظ ماحول

ایک اہم بات بچوں کو ایک محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرنا ہے، جہاں بچے آسانی سے تجربات کر سکیں، غلطیاں جان سکیں اور نت نئی چیزیں سیکھ سکیں۔

بچوں کے دماغ کے لیے سب سے اہم عرصہ

مختلف ریسرچ کے مطابق بچوں کی دماغی ترقی، ذہنی تیزی اور ذہانت کی مضبوط بنیاد کے لیے ابتدائی 5 سے 7 برس بہت اہم ہوتے ہیں۔

یہی وہ عرصہ ہے جب وہ زبان سیکھنے سے لے کر بیشر معاملات کی معلومات اپنے ذہنی پروسیسر میں جمع کر رہے ہوتے ہیں۔

اگرچہ یہ ممکن ہے کہ بعد کے برسوں میں بھی بچوں کی دماغی تیزی پر کام کیا جائے تاہم اس کے لیے زیادہ محنت، وقت اور کوشش درکار ہوتی ہے۔

دماغی ترقی میں نقصان دہ عناصر

بچوں کے دماغ کے لیے سب سے نقصان دہ عنصر ‘بے پروا اور افراتفری’ کا ماحول ہے جہاں خیال رکھنے والے افراد موجود ہوں نہ مناسب تحریک ہو اور ایسے ماحول کی کمی کے اثرات بہت شدید اور طویل المدت ہو سکتے ہیں۔

ایسے ماحول کے نقصانات درج ذیل بھی ہوسکتے ہیں۔

مسلسل تناﺅ سے بچوں کی دماغی نشو و نما سست ہو سکتی ہے، خصوصا بچوں کے دماغ کے اگلے حصے (Frontal Lobe) کی، جو کہ فیصلہ سازی اور اعصابی دباﺅ برداشت کرنے اور لوگوں کو سمجھنے میں معاون ہوتا ہے۔

مسلسل مصیتیں دیکھنے والے اور کم آمدنی والے گھرانوں کے بچوں کا دماغ اپنی ساخت اور ورکنگ میں واضح طور پر دیگر بچوں سے مختلف ہوتا ہے۔

نسبتاً بہتر اور خوشحال ماحول میں رہنے والے بچوں کے مقابلے میں افراتفری اور غیر مناسب ماحول میں رہنے والے بچے تقریباً 3 کروڑ الفاظ کم سنتے ہیں، یوں ان کی لسانی مہارت اور ذہنی تیزی دونوں متاثر ہوتی ہیں۔

مسلسل خدشات میں رہنے والے بچے پڑھائی، دوستی بنانے میں کمزور اور خوبصورت بچپن کی خوبصورتی سے محروم رہتے ہیں۔

یہ سب جاننے کے بعد اب اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس ضمن میں والدین کیا کر سکتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں والدین درج ذیل تدابیر کے ذریعے بچوں کی دماغی تیزی کو یقینی بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

بچوں کو مثبت الفاظ سے مسلسل تحریک دیں، اس سے ان کے ذہنی نشو و نما تیزی سے ہونے لگے گی۔

بچوں سے ان کے پسند کے موضوعات پر بات کریں، سوالات کریں، نظمیں سنیں یا مختلف طرح کے کھیل کھیلیں۔

بچوں کے ساتھ الفاظ کے کھیل کھیلیں، انہیں الفاظ کی معنی اور مختلف حالات کے لیے اس کے استعمال کی مشق کروائیں۔

بچوں سے انفرادی ‘میٹنگ’ کا وقت طے کریں اور اس میں ان سے بات کریں۔

بچوں کے جذبات، احساسات اور خیالات کو سنیں، اس پر مثبت رد عمل دیں، اس کے ساتھ انہیں اپنے احساس کو بیان کرنے میں مدد فراہم کریں۔

گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کی صورت میں انہیں پروجیکٹ دیں، یہ ان کی ‘فیصلہ سازی اور مسائل حل کرنے’ کی دماغی استعداد کو بہتر سے بہترین کر دے گی۔

فرحان ظفر اپلائیڈ سائیکالوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ہولڈر ہیں، ساتھ ہی آرگنائزیشن کنسلٹنسی، پرسنل اور پیرنٹس کاؤنسلنگ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

ڈائری لکھنے سے ذہنی و مدافعتی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

لندن:کمپیوٹرائزڈ اور اسمارٹ موبائل فون کے دور میں اب اگرچہ ڈائریز لکھنے کا رجحان کم …