ہفتہ , 20 اپریل 2024

اپنے لائق فرزندوں کی شہادت سے کیا ایران کمزور ہو رہا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ سال رواں کے آغاز میں (2 جنوری 2020ء کو ) اسلامی جمہوریہ ایران کے مایہ ناز فرزند جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کیا گیا اور اب سال کے آخر میں ایک اور بڑی شخصیت جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو 27 نومبر 2020ء کو تہران کے مضافات میں ایک مقام پر بقول ایک سکیورٹی لیڈر پیچیدہ طریقے سے شہید کر دیا گیا ہے۔ محسن فخری زادہ کی شخصیت، اہمیت، کردار اور خدمات پر پوری دنیا میں تبصرے اور تجزیے جاری ہیں۔ دنیا میں واحد ملک اسرائیل ہے جس نے محسن فخری زادہ کی شہادت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، ورنہ حیران کن طور پر اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل مندوب عبداللہ المعلمی نے بھی ایک انٹرویو میں جوہری سائنسدان شہید فخری زادہ کے قتل کو عالم اسلام کا نقصان قرار دیا ہے۔ اسرائیل نے فخری زادہ کے قتل کو علاقے اور دنیا کے لیے مفید قرار دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسرائیل نے یورپی یونین کی جانب سے فخری زادہ کے قتل کی مذمت کرنے پر یورپی یونین سے ناراضی کا اظہار بھی کیا ہے۔

سحر ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق انٹیلی جنس کے صہیونی وزیر ’’ایلی کوہن‘‘ نے اسرائیلی فوج کے ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایران کے ایٹمی سائنسدان فخری زادہ کے قتل کی یورپی یونین کی جانب سے مذمت کیے جانے پر تنقید کی۔ انھوں نے یورپی یونین کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ یونین ایران کے ایٹمی عزائم اور اس کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے واقف ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسرائیل خود ایک غیر قانونی جوہری ریاست ہے اور جس ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام صہیونی وزیر ایران پر عائد کر رہے ہیں، امریکہ اس عالمی دستاویز سے یک طرفہ طور پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الگ ہوچکا ہے نیز اس معاہدے کے دیگر فریق خاص طور پر یورپی ممالک اس معاہدے کے تقاضوں پر عمل نہیں کر رہے۔

ایک طرف شہید فخری زادہ کے قتل پر اسرائیل اظہار اطمینان کر رہا ہے اور دوسری طرف ایران کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس قتل میں اسرائیل ملوث ہے۔ بی بی سی نے 27 نومبر 2020ء کو اس واقعے کے حوالے سے ’’معصومہ طورفہ‘‘ کا ایک تجزیہ شائع کیا ہے۔ اس میں وہ لکھتی ہیں ’’واقعتاً کئی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو دنیا کے ان چند راہنمائوں میں سے تھے، جنھوں نے براہ راست اس سائنسدان کے بارے میں بات کی تھی۔ سنہ 2018ء میں ایک ٹی وی پریزینٹیشن کے دوران انھوں نے ایران کے جوہری پروگرام میں فخری زادہ کے صف اول کے کردار کے بارے میں بات کی اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ یہ نام یاد رکھیں۔‘‘ ایرانی صدر حسن روحانی نے اس قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری رئیر ایڈمرل علی شمخانی نے شہید فخری زادہ کے جنازے کے موقع پر کہا کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی شناخت کے بارے میں کچھ اشارے موجود ہیں لیکن اس میں صہیونی حکومت اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ ساتھ مجاہدین خلق کے ارکان یقیناً شامل تھے۔

اسرائیل کے ردعمل سے ایرانی الزامات کی ایک طرح سے تائید ہی ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فخری زادہ کی شہادت کے ذمہ داروں کے لیے جس ’’یقینی سزا‘‘ کے عزم کا اظہار کیا ہے، وہ اسرائیل ہی کو دی جائے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خلیج کی ریاستوں میں ایرانی مخالفت میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پیش پیش ہیں۔ سعودی عرب نے بظاہر سرکاری طور پر اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی، تاہم اقوام متحدہ میں اس کے مندوب کا ایک بیان ہم سطور بالا میں ذکر کرچکے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات نے سرکاری طور پر ایرانی سائنسدان کے قتل کی مذمت کی ہے۔

یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ ایران کی بلند پایہ شخصیات کا اس طرح سے یکے بعد دیگرے قتل ایران کو کمزور کرنے کا باعث بن رہا ہے یا نہیں، کیونکہ گاہے بڑی شخصیات کے اس طرح کے قتل سے قوموں کے حوصلے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں 1979ء میں آنے والے انقلاب میں پیش آنے والے ایسے واقعات کو سامنے رکھنا ہوگا۔ یہ انقلاب چونکہ علاقے میں امریکی بالادستی کے خلاف رونما ہوا تھا اور ایک قدیم شاہی نظام کو پلٹ کر اسلامی حکومت کے قیام کا باعث بنا تھا، اس لیے پہلے روز سے امریکہ اور علاقے میں اس کے حلیفوں سے اس کی دشمنی، اس کی ماہیت کا حصہ رہی ہے۔ عراق میں قائم صدام حکومت کو کیل کانٹے سے لیس کرکے ایران پر چڑھائی کے لیے آمادہ کیا گیا۔ شاہ ایران کی وفادار فوج انقلاب کے ہاتھوں نفسیاتی طور پر شکست خوردہ تھی، لیکن اس آٹھ سالہ جنگ میں ایران اور ایران میں قائم انقلاب پہلے سے زیادہ مضبوط اور مقتدر ہوگیا۔

ایران کی پارلیمنٹ کے 72 ارکان ایک دھماکے میں قتل کر دیئے گئے۔ اسمبلی کے اسپیکر شہید ہوگئے۔ ایک اور حملے میں ایرانی صدر اور وزیراعظم کو قتل کر دیا گیا۔ موجودہ رہبر بھی ایک دہشت گرد حملے میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ اسی طرح اعلیٰ درجے کے قائدین کو نشانہ بنایا جاتا رہا اور پھر 2020ء میں ایک حاضر سروس فوجی جنرل کو امریکہ نے عراق کے دورے کے موقع پر شہید کر دیا اور امریکی صدر ٹرمپ نے باقاعدہ تسلیم کیا کہ ان کے حکم پر انھیں قتل کیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ متعدد عراقی فوجی بھی شہید ہوئے، جن میں ایک سینیئر کمانڈر مہندس ابو مہدی بھی شامل تھے۔ گویا انقلاب اسلامی ایران کی پوری تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ علاقے میں امریکی حلیف مسلسل ایران کے خلاف مختلف طریقوں سے جنگ برپا کیے ہوئے ہیں۔ ایران پر وحشت ناک اقتصادی پابندیاں اس پر مستزاد ہیں۔ تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ ہر گزرتے دن میں ایران پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے۔ عراق جو کبھی ایران پر حملہ آور تھا، آج ایران کے قریب ترین دوستوں میں شامل ہے۔ علاقے میں ایران کا اثر و رسوخ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایران ہی ہے جس نے جدید ترین امریکی ڈرون مار گرایا ہے۔ اپنے شہید جنرل قاسم سلیمانی کا بدلہ لینے کے لیے ایران نے عراق میں قائم امریکی فوجی چھاونی پر اعلانیہ حملہ کیا۔ امریکہ کی تاریخ میں اس کے خلاف ایسے فوجی اقدامات کو انہونیاں ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

سعودی ولی عہد بن سلمان نے اعلان کیا تھا کہ وہ جنگ ایران کے اندر لے جائیں گے۔ اس لیے ایران کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے بالعموم امریکی سعودی اور اسرائیلی تثلیث کا نام آتا ہے لیکن سعودیہ کے خلاف یمن میں قائم انقلابی حکومت کی کارروائیاں اگرچہ خود سعودی جارحیت کے جواب میں ہیں، تاہم جنگ سعودیہ کے اندر داخل ہوچکی ہے۔ اس طویل میدانی اور نفسیاتی جنگ کے دوران میں ایران نے مختلف میدانوں میں حیران کن ترقی کی ہے۔ کمزور معیشت کے باوجود ایرانی عوام اپنی حکومت کے ساتھ ہیں۔ اس کا ثبوت وہ مختلف مواقع پر دیتے رہتے ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی کے جنازے میں کروڑوں ایرانی عوام نے شرکت کرکے ثابت کر دیا تھا کہ وہ دشمن کے خلاف منسجم ہیں، اپنے ہیروز کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ان کے راستے کو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔

شہید محسن فخری زادہ کی شہادت کے بعد عالمی سطح کے مختلف تجزیہ کاروں نے لکھا ہے کہ ایران کی جوہری پیشرفت اور صلاحیت پر اس واقعے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ افراد قیمتی ہوتے ہیں اور شہید محسن فخری زادہ جیسے افراد تو بہت ہی قیمتی ہوتے ہیں، لیکن شہیدوں کا خون ہمیشہ قوموں کی مزید بیداری، اتحاد اور پیش رفت کا باعث بنتا ہے۔ آزادی اور استقلال کی قیمت تو ہوتی ہے، ایرانی قوم یہ قیمت بڑی حوصلہ مندی سے ادا کر رہی ہے۔ یہی حوصلہ مندی آخر کار اسے پوری دنیا کے سامنے سرخرو کرے گی۔

تحریر: سید ثاقب اکبر

یہ بھی دیکھیں

تحریک نینوا کے امین زین العابدین علیہ السلام

(تحریر: مولانا گلزار جعفری) شہر عشق و شغف جسکی گلیوں سے کملی والے سرکار کی …