بدھ , 24 اپریل 2024

غلیل سے میزائل تک، فلسطین بدل رہا ہے

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پچھلے گیارہ دن سے جاری جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس جنگ میں اسرائیل اور حماس دونوں نے اپنی صلاحیتوں کو پرکھا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ یہ جنگ تقریباً یکطرفہ ہی ہوتی ہے، طاقت کا توازن اس قدر اسرائیل کے حق میں ہے کہ اسے برابری کی ٹکر قرار دینا نا انصافی ہے۔ دوسرا اسرائیل کو پورے مغرب اور بالخصوص امریکہ کی حمایت حاصل ہے، اسی لیے جنگ کے دوران امریکہ نے اسرائیل کو ملین آف ڈالرز کا اسلحہ دینے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف غزہ تین طرف سے اسرائیل اور ایک طرف سے مصر کے درمیان محصور انتہائی چھوٹا سا خطہ ہے۔ اس جنگ میں فلسطینی بچے، خواتین اور نوجوانوں کا قتل عام کیا گیا۔ بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا گیا۔

جنگ بندی کے اعلان پر اسرائیل نے باقاعدہ طور پر اپنی فتح کا اعلان کیا، جی بہت خوب اعلان کیا۔ فتح کی خواہش ہر جنگ لڑنے والے کی خواہش ہوتی ہے، مگر کیا یہ جنگ اسرائیل جیتا ہے؟ یہ بہت ہی اہم سوال ہے کہ آخر اس جنگ میں جیتا کون ہے۔؟ اس کے لیے گوریلا جنگ کی تیکنیک کو سمجھنا ہوگا، گوریلا جنگ کے ضوابط دوسری جنگ سے الگ ہوتے ہیں۔ اگر گوریلا گروپ اس جنگ کے اختتام تک اپنا وجود طاقت کے ساتھ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور قابض قوت نے اس کی موجودگی کے باوجود جنگ بندی قبول کر لی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ گوریلا گروپ جنگ میں کامیاب رہا ہے۔

بی بی سی کے مطابق جنگ بندی کے آخری گھنٹے میں اسرائیل کی طرف سے بے تحاشہ حملے کیے گئے اور حماس نے بھی اتنی ہی شدت سے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ حماس پوری طاقت سے موجود ہے اور اسرائیل اس کی طاقت کو توڑنے کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ اس جنگ بندی کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا اعلان بذات خود اسرائیل نے کیا۔ عجیب بات ہے ایک فریق کو اتنا رحم آگیا کہ وہ جنگ بندی کر رہا ہے؟ اسرائیل کے بارے میں تو رحم کا سوچنا بھی درست نہیں ہے۔ اس جنگ نے اسرائیل کو بری طرح بے نقاب کیا ہے اور اس کا اربوں ڈالر کا دفاعی نظام بھی عام سے راکٹس کو مکمل طور پر روکنے میں ناکام رہا۔ اس سے پورے اسرائیل میں عدم تحفظ کی ایک لہر نے جنم لیا۔

قارئین کرام آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے تک غزہ پر بمباری کا تماشہ دیکھنے کے لیے صیہونی باقاعدہ بلند مقامات پر جمع ہوتے تھے اور اس کو ایک تماشہ کے طور پر دیکھا کرتے تھے۔ اس کو بین الاقوامی میڈیا نے رپورٹ کیا اور اس پر تنقید بھی کی گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب فلسطینیوں کے ہاتھ میں غلیل تھی اور وہ لوہے کے پہاڑوں کی طرح چلتی بکتربند گاڑیوں پر پتھر پھینکا کرتے تھے۔ اب مقاومت کے تعاون سے بڑے پیمانے پر اہل فلسطین کو تربیت دی گئی ہے اور فلسطینی انجینئرز خود راکٹ اور میزائل بنا رہے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ اسرائیلی بارڈر سے ڈیڑھ سو کلو میٹر دور شہروں کو نشانہ بنایا گیا اور تل ابیت میں صیہونی اہداف کا تعاقب کیا گیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اسے سرخ لکیر کہہ کر فلسطین پر حملہ کیا، جو بنیادی طور پر ان کی الیکشن مہم کا حصہ تھا، یہ ایک جوا تھا جو وہ بری طرح ہار چکے ہیں۔

اس جنگ کے نتیجے میں پورے اسرائیل میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے کہ ہم کسی بھی وقت راکٹ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یہ خوف پہلی بار اسرائیلی ریاست نے مجموعی طور پر محسوس کیا ہے۔ اسرائیل میں مقیم انڈین خاتون صحافی نے جنگ کے دوران لائیو پروگرام میں کہا کہ اسرائیل کی ستر لاکھ آبادی پناہ گاہوں میں رہ رہی ہے۔ گیارہ دن مسلسل زیرزمین رہنا اور یہ جنگ جاری رہتی تو مسلسل کئی ہفتوں تک رہنا پڑ سکتا تھا۔ اسرائیل کی معیشت اور شہری ایسی صورتحال کے بالکل بھی متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ پہلی بار جنگ کے خوف کو اسرائیل میں محسوس کیا گیا ہے۔ خوف کی یکطرفہ ٹریفک اب دوطرفہ ہوچکی ہے، تکلیف دینے والے تکلیف اٹھانے کے لیے بھی تیار رہیں۔

موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسرائیل نے ساٹھ کی دہائی میں یہ فیصلہ کیا کہ بیت المقدس کی آبادی کا تناسب تبدیل کیا جائے گا اور اسے تیس ستر پر لایا جائے گا، یعنی تیس فیصد فلسطینی اور ستر فیصد اسرائیلی۔ اس حوالے سے ہمہ جہت حکمت عملی ترتیب دی گئی، جس میں فلسطینیوں کو خوفزدہ کرنا، ان کے گھروں کو مختلف بہانوں سے گرانا، نئے مکانات کی تعمیر کو تقریباً ناممکن کر دیتا اور بے گھر کیے جانے والے فلسطینیوں کا دوبارہ بیت المقدس میں آباد ہونے کا حق چھین لینا شامل تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس استعماری سوچ پر عمل کرتے ہوئے ڈیڑھ لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو بیت المقدس سے بے دخل کیا گیا۔ اس کے مقابل لاکھوں کی تعداد میں صیہونیوں کو دنیا بھر سے لاکر یہاں آباد کیا گیا۔ شیخ الجراح کے بعد ہونے والی مزاحمت نے اس راستے کے سامنے بند باندھا ہے۔

معروف بین الاقوامی امور کے تجریہ نگار جمال جمعہ لکھتے ہیں کہ بیت المقدس سے غزہ تک فلسطین ابھر رہا ہے اور اسے اسرائیل روک نہیں سکتا۔ معروف تجریہ نگار جون پلگر نے آر ٹی نیوز سے بات کرتے ہوئے اسرائیل کو جھوٹ بولنے والی مشین قرار دیا۔ دنیا پر اسرائیل کی حقیقت آشکار ہوتی جا رہی ہے۔ 2006ء کی حزب اللہ اسرائیل جنگ کے بعد ایک انڈین صحافی نے اسرائیل کے وزیراعظم سے پوچھا تھا یہ جنگ کون جیتا ہے؟ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا یہ جنگ ہم جیتے ہیں۔ اس پر اس نوجوان انڈین صحافی نے کہا تھا اگر یہ جنگ آپ جیتے ہیں تو آپ نے جنگ کے بعد اتنے آرمی افسران کو معطل کیوں کیا ہے؟ موجودہ جنگ وہی لوگ جیتے ہیں، جنہوں نے جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ جشن منائے ہیں، جہاں کی سڑکیں لوگوں سے بھر گئی ہیں اور جن کی مساجد میں جشن کے اعلانات کیے گئے ہیں۔ نتائج کے اعتبار سے یہ جنگ اسرائیل کے لیے بہت بھاری رہی ہے۔ اب غلیل نہیں میزائل کا زمانہ ہے اور نتائج بھی میزائل والے ہی آئیں گے، ان شاء اللہ۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …