بدھ , 24 اپریل 2024

زوالِ سوویت یونین

تحریر: ماہر علی

فروری 1989ء میں جب سرخ فوج براستہ دوستی پل افغانستان چھوڑ کر ازبکستان روانہ ہو رہی تھی تب اس کو اتنی ہزیمت نہیں اٹھانی پڑی تھی جتنی رواں برس امریکیوں کو اپنے انخلا کے موقعے پر اٹھانی پڑ رہی ہے۔ اس وقت دوستی پل عبور کرنے والے آخری شخص قابض افواج کے کمانڈر Boris Gromov تھے۔

ابھی 2 برس ہی گزرے تھے کہ انہوں نے پرانی سوویت یونین کو بچانے کی کوشش میں بغاوت کا ارادہ کیا۔ 1991ء میں Gromov نائب وزیرِ داخلہ تھے اور ان کے باس Boris Pugo اہم سازشی تھے۔ Gromov اور ساتھی جنرل Pavel Grachev ماسکو کی وائٹ ہاؤس پکارے جانے والی عمارت میں قائم روسی پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے کے منصوبے بنا چکے تھے۔

مگر دونوں جنرلوں نے بغاوت کے اگلے دن ہی Boris Yeltsin کے اظہارِ تشکر کے ساتھ اپنی سوچ کو بدل دیا۔ منصوبے کے ماسٹر مائنڈ سیکیورٹی ایجنسی KGB کے سربراہ Vladimir Kryu­chkov تھے اور یہ ارادہ کیا گیا تھا کہ یا تو Mikhail Gorbachev کا تختہ الٹ دیا جائے یا پھر اسے ہتھیار ڈالنے اور 1985ء سے لائی گئی زیادہ تر اصلاحات کو واپس لینے پر مجبور کردیا جائے۔

اس وقت تک یو ایس ایس آر بگاڑ کا شکار بن چکی تھی۔ Gorbachev کی اصلاحات نے غیر متوقع قوتوں کو بے لغام کردیا تھا۔ گلاسنوست (شفافیت کا نعرہ) نے زبردست کامیابی حاصل کرلی تھی اور اس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ جو لوگ حکومت کے فیصلوں سے اختلاف رکھتے تھے ان کے پاس خاموش رہنے کا اب کوئی جواز نہیں بچا تھا۔ Perestroika (اقتصادی اور سیاسی نظام کی تعمیرِ نو کی پالیسی) البتہ ڈگمگانے لگی تھی۔

Gorbachev اپنی آپ بیتی میں کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین (سی پی ایس یو) کی مقامی شاخوں کے اس فیصلے پر نالاں نظر آتے ہیں کہ وہ ماسکو سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ لہٰذا جب پارٹی ان کے ذاتی مفادات میں مداخلت کرتی تو وہ پارٹی مؤقف کے خلاف چلے جاتے کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ انہیں اس خلاف ورزی پر سنگین نتائج نہیں بھگتنے پڑیں گے۔

چینی رہنما Deng Xiaoping کے بیٹے کے بقول ان کے والد نے Gorbachev کو یہ راستہ اپنانے پر ‘احمق’ قرار دیا تھا۔ Deng Xiaoping کی نظر میں کوئی بھی معنیٰ خیز معاشی اصلاحات کمیونسٹ پارٹی کے دباؤ والے طرزِ عمل کے بغیر کامیاب نہیں ہو پائیں گی جبکہ سیاسی اصلاحات بعد میں کی جاسکتی ہیں۔

خیر ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ چین کے تناظر میں یہ تصور کس طرح نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے جہاں ریاست سے منظور شدہ سرمایہ دارانہ نظام پھلا پھولا ہے جبکہ حکومتی پارٹی کے مؤقف سے سیاسی اختلاف کے نتیجے میں مختلف اقسام کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ Gorbachev جس نوعیت کے اصلاح پسند تھے اس کو مدنظر رکھیں تو وہ ایسے نظام پر راضی نہیں ہوپاتے۔

1991ء کے واقعے سے پہلے وہ اصلاحاتی عمل کی حامی اور مخالف قوتوں کے درمیان کسی قسم کا توازن قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہے، جس کا نظارہ سوویت پارلیمنٹ میں اصلاح پسندوں کی صفوں میں Yeltsin کی موجودگی اور مخالف صفوں میں Yegor Ligachev کی موجودگی کی صورت میں دیکھا جاسکتا تھا۔

Gorbachev نے سمجھوتے کی راہ نکالنے کی بھوپور کوششیں کیں مگر 1990ء تک حالات ان کے بس سے باہر ہوچکے تھے، کبھی وہ دائیں جانب جاتے کبھی بائیں طرف لپکتے، ان پر وہی قوتیں حاوی ہونے لگی تھیں جنہیں خود انہوں نے بے لغام کیا تھا۔ 1990ء کے آخر میں ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرف اپنا جھکاؤ رکھتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ میں گول دائرے میں گھوم رہا ہوں۔

اگست 1991ء میں جب انہیں کرائمیا میں واقع ان کے ہولی ڈے ہوم میں عملی طور پر قید کیا گیا تب ان کے مقرر کردہ چیف آف اسٹاف سے لے کر نائب صدر Gennady Yanayev کے مخمور چہرے اور لرزتے ہاتھوں نے قبضے کا اعلان کرتے وقت بغاوت کرنے والوں کی گھبراہٹ کو عیاں کردیا تھا۔ اس بغاوت کا بوجھ Gorbachev پر اس قدر پڑا کہ جس نے ان کی حس مزاح کو نچوڑ کر رکھ دیا۔

لیکن 3 دن بعد دارالحکومت کی سڑکوں پر ماسکو کے باسی نکل آئے اور مسلح افواج کے اہم حلقوں نے شہریوں پر گولی چلانے سے انکار کردیا۔ Yeltsin اپنے وقتِ عروج میں بغاوت کے خلاف اپنی مزاحمت کے اظہار کے لیے وائٹ ہاؤس کے باہر ٹینک کے اوپر چڑھ گئے۔ ان کے نائب Alexander Rutskoi سمیت دیگر Gorbachev کی مدد کے لیے کرائمیا روانہ ہوئے، اور یوں 22 اگست کے ابتدائی گھنٹوں میں Gorbachev ماسکو لوٹ آئے۔

بغاوت تمام ہوگئی تھی۔ Pugo اور ان کی اہلیہ نے خودکشی کرلی مگر دیگر تمام سازشیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا، جنہیں 3 برس سے بھی کم عرصے میں معافی دے دی گئی تھی۔ اسی اثنا میں روس کی سوویت نظام کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی حکومت نے 1993ء میں Yeltsin کے مواخذے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی خاطر وائٹ ہاؤس پر بمباری کرتے ہوئے وہ حدپار کی جو سازشی نہیں کرپائے تھے۔

تاریخ میں اس ناکام بغاوت کا واقعہ نہ ہوتا تو سوویت یونین کا مستقبل کیسا ہوتا یہ کہنا مشکل ہے۔ بالٹک ریاستوں، جن پر دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں قبضہ کیا گیا تھا، کے ہاتھوں اس کے ٹوٹنے کا آغاز ہوچکا تھا چنانچہ اس کے بکھرنے کا سلسلہ اگرچہ سست رفتاری کے ساتھ ہی سہی لیکن کسی نہ کسی طرح جاری رہتا۔ 1991ء میں Gorbachev نے یونین ٹریٹی کا منصوبہ جوڑ لیا تھا، اس یونین ٹریٹی کے ذریعے ریاستوں کو سوویت یونین سے کہیں زیادہ خودمختاری فراہم کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا۔ اس پر 20 اگست کو Yeltsin کے زیرِ اقتدار روس سمیت بقیہ جمہوریہ ریاستوں کو دستخط ثبت کرنا تھیں۔

بغاوت کی وجہ سے یہ معاملہ پس پشت چلا گیا اور دسمبر میں اس وقت یو ایس ایس آر کی سلاو (Slav) ریاستوں یعنی روس، یوکرین اور بیلاروس کے مابین معاہدہ ہوا جس نے سوویت یونین کو تحلیل کردیا، یوں وہ یونین ٹریٹی کا معاملہ آگے ہی نہیں بڑھ سکا۔ سی پی ایس یو اگست میں منتشر ہوگئی اور کرسمس کے دن Gor­­bachev نے ایک ایسی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے استعفی دیا جو اپنا وجود ہی کھوچکی تھی۔

جیو پولیٹیکل اثرات کی گونج 30 سال بعد بھی سنائی دے رہی ہے۔ ولادیمر پیوٹن کا روس سوویت نظام کے چند پہلوؤں کو ایک بار پھر زندہ کرنا چاہتا ہے مگر اس کے جو بہتر قوانین تھے انہیں واپس لاگو کرنا ممکن نہیں۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …