جمعہ , 19 اپریل 2024

آئی ایم ایف کا ایک ارب ڈالر۔۔۔ مگر بحران جاری

تحریر: نسیم زہرا

پاکستان کا اقتصادی بحران تو روز روشن کی طرح عیاں ہے، پیسہ آپ کے پاس کم ہو اور اخراجات بے بہا۔

بیلنس آف پیمنٹس مین پاکستان کی ایکسپورٹ اس کی جی ڈی پی کی نو فیصد ہو اور امپورٹ 25 فیصد ہو، ڈالر کی کمی ہو، لیکن امپورٹ پالیسی ایسی ہو کہ اقتصادی ماہر ثاقب شیرانی کے مطابق پچھلے تین سال میں پاکستانیوں کو دس ارب ڈالر کے ٹیلی فون اور قیمتی گاڑیاں امپورٹ کرنے کی چھوٹ ہو! سب بدلنا تو ہوگا-

باتیں شاید درست بھی ہوں لیکن حالات کی عکاسی تب ہی ہوتی ہے جب حقائق پورے سیاق و سباق میں کہے جائیں۔ ابھی دو ہی روز پہلے پاکستان کے مشیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے یہ فرمایا کہ مہنگائی کی شرح تو ضرور بڑھ گئی ہے لیکن ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غربت میں ایک اشاریے کی کمی آئی ہے۔

آج کے عام شہری کے لیے اور آج کی سیاسی طغیانی میں پھنسے ہوئے پاکستان کے لیے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بڑھ کر شاید ہی کوئی معاملہ ہو۔ چینی، آٹا، ٹماٹر، بجلی، گیس، پٹرول، بس نام لیجیے کسی بھی چیز کا جو پاکستانی روزمرہ کی بنیاد پر استعمال کرتے ہیں تو زندگی کا سب سے بڑا بوجھ اقتصادی ہی نظر آتا ہے۔

بیس ہزار روپے میں چھ سے آٹھ لوگوں کا خاندان بجٹ بنائے تو کیسے بنائے؟ حکومت کرے تو کیا کرے؟ اب تو آئی ایم ایف کے ساتھ جن شرائط کا اعلان 22 نومبر کو شوکت ترین صاحب نے کیا اس کے بعد مہنگائی بڑھتی ہوئی نظر آئے گی۔

علاوہ یہ کہ کسی معجزے کے تحت بین الاقوامی سطح پر تیل گیس وغیرہ کی قیمتوں میں کمی آئے۔

ہاں یہ ضرور ہوا کہ بدقسمتی سے کرونا سے منسلک ایک خوفناک صورتحال کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمت اٹھارہ مہینے میں مرتبہ دس فیصد گری ہے۔

شوکت ترین صاحب نے فورا ہی یہ اعلان بھی کردیا کہ گرتی ہوئی قیمت کا فائدہ عوام کو دیا جائے گا، حکومت نے ویسے ہی پٹرول پر ہر قسم کا ٹیکس ختم کر دیا ہے جس کی وجہ سے پٹرول کی قیمت میں کمی آئے گی۔ لیکن یہ کچھ معاملہ عجیب بھی ہے کیونکہ ایک طرف تو حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ آئی ایم ایف سے یہ طے ہوا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں چار روپے فی لیٹر اضافہ ہوگا تو وہ اضافہ تو بہرحال ہونا ہی ہے اور ہاں پٹرول کی قیمت اگر بین الاقوامی سطح پر کسی اچھی وجہ سے، کسی مثبت وجہ سے کم ہوتی ہے تو پھر پاکستانیوں کو بھی فائدہ ضرور ہوگا۔

لیکن اس وقت اس حالات کچھ مختلف ہیں۔ یکدم جنوبی افریقہ میں ایک نہایت خطرناک اور تیزی سے پھیلنے والا کرونا کا ویرینٹ دریافت ہوا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان نے بھی پانچ ممالک سے ہر قسم کی آمد و رفت کو فوری طور پر روک دیا ہے۔ یہ معاملہ پوری دنیا کے بہت سے ممالک تک پھیلا ہے، یعنی آمدورفت پر سخت پابندی۔ جس میں خاص طور پر یورپ کے بہت سے ملک شامل ہیں۔

نتیجہ کیا ہوا، ایئر لائن انڈسٹری اور ان سے منسلک تمام انڈسٹریز نے یہ طےکیا کہ شاید اب بزنس پھر ڈھیلا پڑنے والا ہے، دنیا میں ہوائی سفر شاید پھر سے اب کمی کی طرف جائے جس کے نتیجے میں پٹرول کی ڈیمانڈ میں یقینا کمی آئے گی، تو پھر یوں تیل کی قیمت میں بھی کمی آئی۔

اب اس طرح کی کمی پر تکیہ کرنا شاید نادانی ہوگی۔ کرونا خالی پٹرول کی قیمت میں کمی لاتا ہے، ورنہ جیسے دنیا میں پہلے دیکھا گیا، کووڈ کا مزید پھیلاؤ اقتصادیات کا بھٹہ بٹھا سکتا ہے۔

پاکستان کو تیل کی قیمت نہیں بلکہ اقتصادیات سے منسلک تمام محرکات کا جائزہ لینا ہوگا۔ یقیناً مہنگائی تو پاکستانیوں نے پہلے بھی دیکھی ہے لیکن اتنی تیزی سے بہت سے معاملات بگڑتے ہوئے شاید ماضی میں نہیں دیکھے۔ اس وقت دنیا کے بھی پاکستان پر کم پریشر تھے، دوست یا قدردان زیادہ تھے، ہم دوسرے ممالک کی جنگوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہو کر کچھ اقتصادی فوائد حاصل کرتے تھے، جن کی وجہ سے بین الاقوامی اقتصادی ادارے ہمارے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور اندرون ملک بھی اقتصادیات کبھی کسی بھی حکومت کے لیے بظاہر سیاسی خطرے کی وجہ نہیں بنیں۔

اسی نئے آئی ایم ایف معاہدے سے منسلک اور بھی سنگین معاملات ہیں۔ پاکستان میں انڈسٹری کو یقیناً نقصانات ہوں گے، مثلا بجلی کی قیمت کو بڑھانا ہوگا، سیلز ٹیکس بھی لگانا ہوگا، تقریبا تین ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ جو صنعتکاروں وغیرہ کو دی تھی وہ بھی حکومت کو واپس لینا ہوگی۔ یہ اقدامات یقینا صنعتی ترقی میں کمی کریں گے جس سے بے روزگاری مزید بڑھے گی اور عوام اور سرمایہ کار دونوں کے لیے حالات بگڑیں گے۔

مہنگائی تو بڑھتی ہوئی نظر آ ہی رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت پر ایک طرف سے عوام کی چیخ و پکار اور دوسری طرف سے سیاسی جماعتوں کا دباؤبھی موجود ہے۔

یقیناً عمران خان نے 1.3 کھرب روپیہ غریبوں کے لیے مختص کیا ہے تاکہ وہ مہنگائی کے طوفان میں بہہ نہ جائیں لیکن آنے والے دنوں میں مہنگائی بظاہر بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس کے علاوہ گیس جیسی اہم شے کی جب کمی درپیش ہوگی جس کا اعلان پرائم منسٹر خود کر چکے ہیں تو پھر صنعت کار کے کام میں مندی ہی پیدا ہوگی جس کا نتیجہ مزدور کو بھگتنا ہوگا۔ شاید کچھ عرصے کے لیے بے روزگاری، بڑھتی ہوئی مہنگائی،

اور پاکستان کا اقتصادی بحران اب روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

جب موجودہ مشیر خزانہ شوکت ترین نے اپریل کے مہینے میں اپنا عہدہ سنبھالا اور آئی ایم ایف کے معاملات پر نظر ڈالی تو کافی پر امید تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے اقتصادی ریفارم سے مرعوب ہو کر پاکستان کا ساتھ دے گا۔ ان کا خیال تھا کہ جی ڈی پی کی نمو میں اضافے کا ٹارگٹ، ٹیکس جمع کرنے کے اہداف پورے کرنا اور حکومت کی آمدن میں اضافے کا باعث ہو گا، لیکن ساتھ موجود مہنگائی کے پس منظر، عوام پر بڑھتے بوجھ اور بڑھتی ہوئی حکومتی مشکلات کے نتیجے میں آئی ایم ایف اور اس سے منسلک ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک، ان سے پہلے کے منسٹر حفیظ شیخ کے کچھ وعدوں پر جن میں بجلی کے نرخ میں اضافہ اور کچھ سبسڈی وغیرہ شامل تھے، ان پر نظر ثانی کرنی پر راضی ہوں گے۔

شوکت ترین صاحب نے پارلیمان کی کمیٹی برائے خزانہ میں کھل کر اقتصادی پالیسی پر تنقید کی، سود کی شرح میں اضافہ، مہنگائی کا بڑھتا ہوا رجحان، روپے کی قدر میں تقریبا 35 فیصد کمی اور پھر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جس میں سات سو ارب روپے ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے، بجلی کے نرخ کو بڑھایا جانے وغیرہ کی بات کی۔

بہرحال پاکستانی تاریخ کے لمبے ترین اور سخت ترین آئی ایم ایف مذاکرات اختتام پذیر ہوئے اور نومبر 22 کو شوکت ترین صاحب نے کچھ نئے، کچھ پرانے اور کچھ سخت اقدامات پر آئی ایم ایف کا ساتھ دیا جن کی بنا پر آئی ایم ایف پاکستان کو جنوری میں ایک ارب ڈالر دے گا۔

یقینا اس سے پاکستان کے دیرینہ سنگین اقتصادی معاملات حل نہیں ہونے لگے۔ کئی آئی ایم ایف پیکیج آئے اور استعمال کیے گئے لیکن نہ پرائیوٹائزیشن ہو پائی، نہ اہم انرجی ریفارم، نہ ٹیکس نیٹ بڑھا، نہ حکومتی اخراجات خاطر خواہ کم ہوئے، نہ ٹیکس چور پکڑے گئے اور نہ ہی حکومت کے اندر کی کرپشن کم ہوئی۔ مثلاً حال ہی میں حکومت کے کووِڈ اخراجات پر 40 ارب روپیہ کے حوالے سے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اقتصادی معاملات پر اب تو یقیناً پاکستان کی تما سیاسی جماعتوں اور صنعت کاروں کو معیشت کے دھارے میں شامل کر کے سٹیک ہولڈر بنانا لازمی ہے۔

یقیناً موجودہ حکومت اقتصادی ریفارمز کر رہی ہے لیکن معاملہ اب تمام پارلیمان کو ساتھ لے کر ہی حل ہو سکتا ہے، آپ اپوزیشن کو دیوار سے لگائیں گے تو مہنگائی کا مارا پاکستانی اپوزیشن کے ساتھ جا کر کھڑا ہوجائے گا۔ کھیل پھر بھی سیاسی رہے گا۔ ہمارے ملک کو فوری اور سنجیدگی سے اقتصادی بحران سے اگر نہ نکالا گیا تو ملک انتشار اور بحران کا لازمی شکار ہوگا۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …