جمعہ , 19 اپریل 2024

2021ء میں فلسطین میں ہونے والے اہم واقعات (2)

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

صیہونی حکومت نے گذشتہ سال بہت سے اہم واقعات کا مشاہدہ کیا، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے اہم واقعہ 12 سال بعد بنجمن نیتن یاہو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانا تھا۔ مقبوضہ علاقوں کے صیہونی، مارچ 2021ء میں دو سالوں میں چوتھی بار انتخابات میں شامل ہوئے۔ اسرائیل کے چوتھے پارلیمانی انتخابات 23 مارچ کو ہوئے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کی 120 نشستیں ہیں۔ وزیراعظم کی نامزدگی کے لیے 61 اراکین کو حق میں ووٹ دینا ہوتا ہے۔ اس الیکشن میں کوئی بھی پارٹی اور موجودہ پارلیمنٹ کی 61 سیٹیں نہیں جیت سکی۔ نیتن یاہو کو دوبارہ اس وقت کابینہ کی تشکیل کا کہا گیا جب ان کی لیکوڈ پارٹی نے پارلیمنٹ میں 31 نشستیں حاصل کیں جبکہ 52 اراکین نے انہیں نئی ​​کابینہ کی تشکیل کے لیے نامزد کیا۔ دوسری طرف صرف 45 اراکین نے یائر لاپڈ کو کابینہ کی تشکیل کے لیے نامزد کیا۔ تاہم نیتن یاہو قانونی وقت کے اندر نئی کابینہ بنانے میں ناکام رہا اور 12 سال بعد 13 جون کو باضابطہ طور پر وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہونے پر مجبور ہوا۔

13 جون کو اسرائیلی پارلیمنٹ کے اجلاس میں کہنے کو بہت کچھ تھا۔ بینجمن نیتن یاہو، جو 2009ء سے اسرائیل کے وزیراعظم تھے، انہوں نے کابینہ کی تشکیل کو روکنے کی کوشش کی۔ نیتن یاہو کے حامیوں نے پارلیمنٹ میں تنازعہ کو جنم دیا، تاکہ ان کی برطرفی اور لیکوڈ لیڈر کو ہٹانے سے روکا جا سکے، لیکن اسپیکر نے ان میں سے کچھ کو بے دخل کر دیا اور بالآخر نیتن یاہو کی لابنگ، جھگڑے اور دھمکیاں کام نہ آئیں اور آخرکار وہ اداس چہروں کے ساتھ، نفتالی بینیٹ کو عہدہ سونپنے پر مجبور ہوگیا۔ نیتن یاہو اس وقت اقتدار سے علیحدہ ہوا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس امریکہ میں یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ اسرائیلی انتخاب میں نیتن یاہو کی حمایت کرسکیں اور ایک طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے نے نیتن یاہو کی شکست اور اسے اقتدار سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نیتن یاہو نے اقتدار مین رہنے کے لئے فلسطین پر 12 دن کی جنگ مسلط کرکے اسے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ تاہم 12 روزہ جنگ نیتن یاہو کے لیے ایک بڑی شکست تھی اور نیتن یاہو کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنی۔

یامینا پارٹی کے رہنما نفتالی بینیٹ، یشد پارٹی کے رہنماء یائر لاپڈ اور عربی زبان بولنے والے سیاسی گروہوں کے سربراہ منصور عباس نے کافی بحث و مباحثے کے بعد نئی کابینہ کی تشکیل کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حریفوں کے درمیان نئی اسرائیلی کابینہ کی تشکیل کا معاہدہ سیاسی صف بندی کی وجہ سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کی صرف ایک وجہ تھی اور وہ بنجمن نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹانا تھا۔ نیتن یاہو 2009ء سے اسرائیل کے وزیراعظم ہیں۔ نیتن یاہو نے وزیراعظم رہنے کے لیے گذشتہ دو سالوں میں چار پارلیمانی انتخابات کرائے ہیں اور مارچ 2020ء میں ہونے والے تیسرے پارلیمانی انتخابات کے بعد بھی انھوں نے بینی گینٹز کے ساتھ مل کر اتحاد بنایا تھا، لیکن کابینہ مہینوں میں ہی ٹوٹ گئی۔ نیتن یاہو کے اقتدار میں رہنے کی خواہش کو سیاسی حریفوں نے ایک قسم کی "سیاسی تذلیل” کے طور پر دیکھا۔

اس طرح گذشتہ دو سالوں کے دوران ہونے والے چار انتخابات میں، انہوں نے نیتن یاہو کی سربراہی میں مخلوط کابینہ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا اور بالآخر نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹانے کی مشترکہ تشویش نئی کابینہ کی تشکیل کے معاہدہ کا باعث بنی۔ اکثر متصادم نظریات رکھنے والی آٹھ جماعتی اتحادی کابینہ کے ارکان نے نیتن یاہو کو بے دخل کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں میں سیاسی تعطل کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ نیتن یاہو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا معاملہ حریفوں کے لیے اس قدر اہم تھا کہ حتیٰ کہ ان کی پارٹی کے رہنماء یائر لاپڈ نے، جنہیں صیہونی حکومت نے کابینہ کی تشکیل کے لیے مقرر کیا تھا، نفتالی بینیٹ کے ساتھ باری باری وزارت عظمیٰ لینے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس معاہدے کے تحت ستمبر 2023ء تک بینیٹ 22 مہینوں تک اقتدار میں رہیں گے، جس کے بعد لایپڈ ستمبر 2023ء سے نومبر 2025ء تک وزیراعظم بنیں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے نیتن یاہو اور لیکوڈ پارٹی نے بھی چیلنج کیا ہے۔ نیتن یاہو اور لیکوڈ پارٹی کا خیال تھا کہ لایپڈ کو کابینہ بنانے کا موقع دیا گیا تھا، بینیٹ کو نہیں۔ اس لیے لایپڈ کو پہلے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنا چاہیئے، لیکن اسرائیلی حکومت کے سربراہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔

2021ء میں قبضہ شدہ زمینیں سکیورٹی کے واقعات کے لحاظ سے زیادہ مستحکم نہیں تھیں۔ نیتن یاہو اگرچہ کورونا کی ویکسینیشن کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، لیکن مخالفین نے مظاہروں میں شدت پیدا کرکے اس کامیابی کو ناکامی میں بدل دیا۔ کرونا پابندیوں کی وجہ سے بہت سی ملازمتیں ختم ہوگئی تھیں۔ سیاحت کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا اور کاروباری مالکان نے کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کابینہ کے کام کی شکایت کی ہے، جس سے نیتن یاہو کو سخت سیاسی نقصان اٹھانا پڑا۔ گذشتہ سال اسرائیلی معاشرے میں ایک اور سنگین مسئلہ سماجی تقسیم، خاص طور پر نسلی تقسیم کا ابھرنا تھا۔ مقبوضہ علاقوں میں عرب اور یہودی شہریوں کے درمیان خلیج بڑھنے کے رجحان مین اضافہ ہوا ہے۔ الیکشن کے دوران صہیونی آباد کار بار بار ’’عرب مردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ "عربوں پر موت” کا نعرہ لگایا گیا، کیونکہ "رعم” کے نام سے جانے والی مشترکہ عرب انتخابی فہرست نے نئی اسرائیلی کابینہ کی تشکیل کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عربوں کے لیے مردہ باد کا نعرہ نہ صرف اسرائیلی معاشرے میں نسلی تقسیم تھا بلکہ ایک سیاسی تقسیم بھی تھی، کیونکہ اسرائیلی عربوں کے اعتماد کا ووٹ بنجمن نیتن یاہو اور لیکوڈ پارٹی کو اقتدار سے ہٹانے کا باعث بنا۔

درحقیقت یہودیوں کا اب بھی یہ ماننا ہے کہ عرب مقبوضہ علاقوں میں دوسرے درجے کے شہری ہیں اور عربوں کی فہرست میں شمولیت سے جو کابینہ تشکیل دی گئی ہے، اس کا قانونی جواز بہت کم ہے۔ اگر عرب لیگ نے نفتالی بینیٹ اور یائر لاپڈ کے ساتھ اتحاد نہ کیا ہوتا تو اتحادی کابینہ ممکن نہ ہوتی، نیتن یاہو اقتدار میں رہتے اور اسرائیل پانچویں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے لیے تیار ہو جاتا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ سیاسی تقسیم ظاہر کرتی ہے کہ اتحادی کابینہ کے خلاف مقبوضہ علاقوں کے اندر نیتن یاہو اور ان کے حامیوں کی تخریب کاری جاری ہے۔ نیتن یاہو کی قیادت میں دائیں بازو نے اتحادی کابینہ کو تقسیم کرنے اور اسے جاری رکھنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ گذشتہ سال غاصب صیہونی حکومت کو مقبوضہ علاقوں میں اہم چیلنجز کا سامنا تھا، تاہم بعض عرب ممالک نے صیہونی حکومت کے مفادات میں تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسی اپنائی۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے ابوظہبی کا سرکاری دورہ کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے 12 دسمبر کو ابوظہبی ایئرپورٹ پہنچنے پر متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید نے استقبال کیا۔ بینیٹ نے 13 دسمبر کو متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید سے بھی ملاقات کی۔

اس سے قبل اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپڈ نے گذشتہ سال جون میں یو اے ای کا دورہ کیا تھا۔ بینیٹ کا یو اے ای کا دورہ کسی قابض حکومت کے وزیراعظم کا پہلا دورہ تھا۔ اقتصادی اہداف کے علاوہ، ان سفارتی دوروں نے ایک اہم سیاسی مقصد کا تعاقب بھی کیا، جو کہ عرب حکام کی میٹنگ کی صورت میں خلیج فارس کی ریاستوں کے ساتھ صیہونی حکومت کے تعلقات پر پابندی کو توڑنا تھا۔ ان سفارتی ملاقاتوں سے اسرائیل نے سیاسی طور پر مستحکم ہونے کی کوشش کی، اسی لئے وہ تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ صیہونی حکومت نے متحدہ عرب امارات کے علاوہ بحرین کے ساتھ بھی تعلقات کو وسعت دی۔ منامہ میں اسرائیلی سفارت خانہ اور تل ابیب میں بحرین کا سفارت خانہ کھولا گیا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ لاپیڈ 30 ستمبر کو تل ابیب اور منامہ کے تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کے بعد پہلے سرکاری دورے پر بحرین پہنچے۔ لاپیڈ نے اپنے ذاتی ٹوئیٹر پیج پر بحرین میں اپنی آمد کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: "ہم بحرین میں داخل ہوئے،” "مجھے اسرائیل کے پہلے سرکاری اور تاریخی دورے پر نمائندگی کرنے پر بہت فخر ہے۔” اسرائیلی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ لاپیڈ کا دورہ ان کے بحرینی ہم منصب عبداللطیف بن راشد الزیانی کی دعوت پر ہوا۔

جیسے جیسے بحرین اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات بڑھتے گئے، اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے ساتھ اسرائیلی حکومت کے خفیہ تعلقات مضبوط ہوتے گئے جبکہ دوسری طرف فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے گئے اور دونوں فریقوں کے درمیان دشمنی بڑھتی گئی۔ دریں اثناء فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے اسرائیلی وزیر جنگ سے دو ملاقاتیں کیں، جنہوں نے 28 دسمبر کو مقبوضہ علاقوں کا دورہ کیا اور بنی گانٹز سے ملاقات کی۔ نئی صہیونی کابینہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد محمود عباس کی گینٹز سے یہ دوسری ملاقات تھی۔ دونوں فریقوں کے درمیان پہلی ملاقات اگست 2021ء کے آخر میں رام اللہ میں ہوئی تھی، جو تقریباً ایک دہائی میں اپنی نوعیت کی پہلی اعلیٰ سطحی بات چیت تھی۔

ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …