ہفتہ , 20 اپریل 2024

بیان حلفی کیس: گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر فرد جرم عائد

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر فرد جرم عائد کردی۔

تاہم عدالت نے کیس میں نامزد جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن، سینیئر صحافی انصار عباسی اور عامر غوری کے خلاف فرد جرم عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس اطہر من اللہ نے فریقین سے کہا کہ عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کا حکم پہلے دیا تھا اس لیے پہلے چارج فریم کریں گے پھر آپ کو سنیں گے۔

عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے رانا شمیم کو روسٹرم پر طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے دو نئی درخواستیں دائر کردی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ پہلے فرد جرم عائد ہوگی پھر درخواستیں دیکھیں گے, عدالت حکم دے چکی تھی آج فرد جرم عائد ہوگی۔

رانا شمیم نے وکیل لطیف آفریدی کے عدالت پہنچنے تک کی مہلت مانگی تو عدالت نے سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کردیا۔

اس عدالت کو ہی فوکس کر کے بیانیہ بنایا جا رہا ہے، چیف جسٹس
بعدازاں سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت کی بہت بے توقیری ہو چکی ہے، کیا اس عدالت کے ساتھ کسی کو کوئی مسئلہ ہے، اس عدالت کو ہی فوکس کر کے بیانیہ بنایا جا رہا ہے، عدالت کا احترام کرتے ہوئے کیس کی کارروائی آگے چلانے دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کس طرح کا بیانیہ ہے کہ اس عدالت کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، عدالت ایک لائسنس نہیں دے سکتی کہ کوئی بھی سائل آکر اس طرح عدالت کی بے توقیری کرے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’آپ کو احساس تک نہیں کہ زیر سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی، یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اسے ویلکم کرتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ جولائی 2018 سے لے کر آج تک وہ آرڈر ہوا ہے جس پر یہ بیانیہ فٹ آتا ہو؟ ایک اخبار کے ایک آرٹیکل کا تعلق ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس کورٹ کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، جب اسٹوری شائع کی گئی تو ایک کیس دو دن بعد سماعت کے لیے مقرر تھا، اگر کوئی غلطی تھی تو ہمیں بتا دیں ہم بھی اس پر ایکشن لیں گے۔

اس دوران پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے ناصر زیدی نے عدالت سے کچھ کہنے کی اجازت مانگی تو عدالت نے کہا کہ آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں، ہم پہلے بھی کہہ چکے کہ ان کا ثانوی کردار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کل کو کوئی بھی تھرڈ پارٹی ایک کاغذ دے گی اور اس کو ہم چھاپ دیں گے تو کیا ہوگا؟ اتنا بڑا اخبار کہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی قانونی رائے نہیں لی تو پھر یہ زیادتی ہو گی۔

عدالتی کارروائی کی کوریج کے دوران احتیاط کرنی چاہیے، ناصر زیدی
پی ایف یو جے کے ناصر زیدی نے کہا کہ اس کارروائی سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے، عدالتی کارروائی کی کوریج کے دوران احتیاط کرنی چاہیے، ہم نے ملٹری کورٹس کا سامنا کیا اور آج آزاد عدلیہ کا سامنا کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ناصر زیدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تو خود کوڑے بھی کھائے ہیں، اسی وجہ سے آپ کو بھی آزادی ملی، یہ بتائیں کہ کیا کوڑا زیادہ زور سے لگتا ہے؟

ناصر زیدی نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے سے دنیا بھر میں غلط پیغام جائے گا، عدالت خود آزادی اظہار رائے کے حق میں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہمارے لیے سیکھنے کا عمل ہے، آپ چاہتے ہیں کہ میں ریسرچ پیپر لکھوں، آزادی اظہار رائے نہیں ہو گی تو آزاد عدلیہ بھی نہیں ہو گی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ میری مودبانہ درخواست ہوگی کہ رانا شمیم پر فرد جرم عائد اور باقیوں کی حد تک مؤخر کردی جائے۔

عدالتی معاون ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ صحافتی تنظیم نے بڑی اچھی بات کی ہے، یہی بات میڈیا پرسنز بھی کردیں، ان کی جانب سے بھی ایسا جملہ آنا چاہئے کہ وہ آئندہ مزید محتاط رہیں گے، اس کیس کی جس طرح میڈیا میں رپورٹنگ ہو رہی ہے وہ بھی زیر التوا مقدمے کے قواعد کے خلاف ہے۔

عدالت نے کہا کہ اگر کہیں پر یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا تو اس کے نتائج خطرناک ہیں، یہاں معاملہ مختلف ہے۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ جس اخبار کی پروسیڈنگز چل رہی تھیں، اسی اخبار نے عالمی تنظیموں کے بیانات بھی چھاپے، اس میں پہلے انکوائری کروالیں۔

اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ وہ اس بات کی مخالفت کریں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بیان حلفی میں اس عدالت کی بات کی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میڈیا کے تینوں صاحبان صرف ناصر زیدی صاحب کی بات سے اتفاق کر لیں تو ان کی حد تک چارج ڈراپ کر دیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رانا شمیم نے دو درخواستیں دائر کی ہیں، وہ درخواستیں کیا ہیں؟ جس پر رانا شممیم نے روسٹرم پر آکر اپنی متفرق درخواستیں پڑھ کر سنائیں۔

رانا شمیم نے اپنی درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی کہ بیان حلفی کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ بیان حلفی کے بارے میں کسی کو بتائے بغیر 10 نومبر 2021 کو سربمہر کیا اور انگلینڈ میں نواسے کےحوالے کیا، 30 اکتوبر 2021 کو امریکا میں سمپوزیم میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی جس کا موضوع پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوزم تھا۔

قریبی عزیزوں کی اموات کے بعد واقعہ ریکارڈ پر لانے کا سوچا، رانا شمیم
رانا شمیم نے مزید کہا کہ 6 نومبر کو بھائی کی وفات کی اطلاع ملی تو پاکستان کی ڈائریکٹ فلائیٹ نہ مل سکی اس لیے برطانیہ کی ٹرانزٹ فلائیٹ کے ذریعے واپس آیا۔

انہوں نے کہا کہ بھائی کی وفات سے قبل بھی چار ماہ کے دوران خاندان میں چار قریبی رشتہ داروں کی اموات ہوئیں اور اس وجہ سے افسردہ تھا، خاندان کے قریبی افراد کی موت کے بعد اپنے علم میں موجود واقعہ جلد از جلد تحریری شکل میں لانے کی اہمیت کا احساس ہوا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات سپریم جوڈیشل کونسل کو اس لیے نہیں بتائی کیونکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس وقت خود سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ تھے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ واقعہ پاکستان کی حدود سے باہر پیش آیا اور اس واقعہ کے ایک ماہ بعد عہدے سے بھی ریٹائر ہو گیا۔

رانا شمیم کا کہنا تھا کہ بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق میں وہی کچھ بیان کیا گیا جو خود سنا، یہ حقائق زندگی بھر بیان نہ کرنے کا ارادہ تھا مگر مرحومہ اہلیہ سے کیا گیا وعدہ اور فیملی ممبرز کی اموات کے بعد حالات کے باعث حقائق کو بیان حلفی کی شکل میں ریکارڈ کیا۔

رانا شمیم نے کہا کہ یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق کی تصدیق انکوائری کے ذریعے کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کے حصول کے لیے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ سابق چیف جسٹس کا جوابی حلف نامہ بھی انکوائری کے سامنے پیش کیا جائے اور جرح کا موقع دیا جائے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق غلط ثابت ہونے تک یہ فوجداری توہین کا کیس نہیں بنتا۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق درست ثابت ہو جائیں تو کیس ہی ختم ہو جائے گا جو کہ منصفانہ انکوائری سے ہی ممکن ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بیان حلفی کی تشہیر کا کبھی کوئی ارادہ نہ تھا اس لیے اسے خفیہ رکھا اور پاکستان سے باہر ریکارڈ کرایا۔

رانا شمیم نے کہا کہ اس عدالت کے ججز کا احترام ہے جو آزاد ہیں اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت سے استدعا ہے کہ توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کے بجائے حقائق جاننے کے لیے انکوائری شروع کی جائے۔

فرد جرم عائد
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے رانا شمیم کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کر دی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم کو فرد جرم پڑھ کر سنائی اور کہا کہ آپ نے انگلینڈ میں بیان حلفی ریکارڈ کرایا، آپ نے کہا چیف جسٹس ثاقب نثار چھٹیوں پر گلگت بلتستان آئے، آپ کے مطابق انہوں نے ہدایات دیں کہ نواز شریف اور مریم نواز الیکشن سے پہلے باہر نہیں آنے چاہئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رانا صاحب آپ ماشا اللہ چیف جج رہ چکے ہیں، آپ نے بھی توہین عدالت کے کیسز سنے ہوں گے، آپ کا الزام اس کورٹ سے متعلق ہے، آپ کو معلوم ہے کہ چارج فریم کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ کو موقع ملے گا۔

جس پر رانا شمیم نے کہا کہ میں نے کبھی توہین عدالت کا کیس نہیں سنا، میں اس پر یقین نہیں رکھتا، میں تو آپ اور جسٹس عامر فاروق کے سامنے پیش ہوتا رہا ہوں۔

سابق چیف جج نے کہا کہ میں اور اٹارنی جنرل کے والد صاحب اکٹھے پریکٹس کرتے رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ یہ پہلے دن سے کیوں میرے خلاف ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے پوچھا تھا کہ کیا نوٹری پبلک کے خلاف آپ نے کوئی کارروائی شروع کی؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے چارج سنا اور اس کو قبول کرتے ہیں؟جس پر رانا شمیم نے کہا کہ کچھ چیزیں ماننے والی ہیں اور کچھ نہیں ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے پھر استفسار کیا کہ کیا آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے جس کی نقل آپ کو دے دی جائے گی۔

صحافیوں پر فرد جرم عائد نہ کرنے کا فیصلہ
رانا شمیم نے عدالت سے سوال کیا کہ کیا صرف میرے خلاف چارج فریم ہوا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ابھی باقی دیکھتے ہیں، آپ تحریری جواب دیں اور اپنا بیان حلفی جمع کرائیں۔

رانا شمیم نے کہا کہ عدالت نے سوچ لیا ہے تو مجھے پھر آج ہی سزا سنا دیں، میرے ساتھ اس طرح زیادتی نہیں ہونی چاہیے، میں ہر ہفتے کراچی سے آتا ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو آنا پڑے گا آپ پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔

سابق چیف جج نے کہا کہ میرا سارا کام پھنسا ہوا ہے، میں بہت ڈسٹرب ہوں، میں جتنی عزت اس عدالت کی کرتا ہوں، شاید ہی کوئی اور کرتا ہوں، 20 یا 25 فروری تک کی تاریخ دے دیں۔

تاہم اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت نے 15 فروری کی تاریخ دے دی۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافیوں کے خلاف چارج فریم نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ اس معاملے کو عارضی طور پر نمٹاتے ہیں، اگر صحافیوں نے ایسا کچھ کیا تو چارج فریم کیا جائے گا۔

بعدازاں عدالت نے رانا شمیم کی جانب سے بیانِ حلفی کی انکوائری کے لیے دائر کردہ دونوں متفرق درخواستیں خارج کرتے ہوئے کیس کی سماعت 15 فروری تک کے لیے ملتوی کردی۔

عدالت نے حکم دیا کہ یہ عدالت صحافیوں پر فرد جرم عائد نہیں کر رہی،اگر ٹرائل میں کوئی بات سمجھ آئی کہ خبر جان بوجھ کر کی گئی تو کارروائی کریں گے۔

معاملے کا پس منظر
خیال رہے کہ 15 نومبر2021 کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔

مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزار نے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا۔

رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنے چاہیئں، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔

دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔

ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔

ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’اس وقت انہوں نے اپنی مدت میں توسیع کے متعلق شکوہ کیا جبکہ ان کی ان دعووں کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے‘۔

اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے 16 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

30 نومبر کو رانا شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے اپنا ہی بیانِ حلفی نہیں دیکھا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف الزامات عائد کیے تھے، جس پر عدالت نے رانا شمیم کو 7 دسمبر تک اصل بیان حلفی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم 7 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں رانا شمیم کے وکیل نے کہا تھا کہ بیانِ حلفی کا متن درست ہے لیکن اسے شائع کرنے کے لیے نہیں دیا گیا تھا۔

اس سماعت کے 10 دسمبر کو جاری ہونے والے حکم نامے میں ہائی کورٹ نے فریقین کی جانب سے جمع کروائے گئے جوابات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے فرد جرم عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ نے رانا شمیم کا نام پروونشل نیشنل آئیڈینٹی فکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) مین شامل کردیا تھا جس کے تحت 30 روز کی سفری پابندی عائد ہوتی ہے۔

بعد ازاں 13 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل نے استدعا کی تھی کہ توہین عدالت کے نوٹسز ملنے والے اپنے بیان حلفی جمع کرا دیں، اس دوران رانا شمیم کا اصل بیان حلفی بھی آ جائے گا، اس کے بعد فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کی جائے۔

اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس نے رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم کا فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر اصل بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

بعدازاں 20 دسمبر کی سماعت میں رانا شمیم کی پیروی کرنے والے وکیل لطیف آفریدی نے بتایا تھا کہ ان کے مؤکل کی جانب سے سربمہر بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرایا جاچکا ہے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت چاہتی ہے کہ اپنا بیانِ حلفی رانا شمیم خوف کھولیں۔

اس کیس کی 28 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں رانا شمیم نے عدالت کے سامنے اپنا سر بمہر بیانِ حلفی کھول دیا تھا اور عدالت نے فریقین پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 7 جنوری کی تاریخ مقرر کی تھی۔

اس سماعت میں اٹارنی جنرل نے رانا شمیم اور دیگر پر فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہ رانا شمیم بیان حلفی لکھنے والے ہیں ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا تھا کہ حلف نامہ جن سے متعلق ہے ان کی جانب سے کوئی تردید نہیں کی گئی، رانا شمیم مان لیں وہ استعمال ہوئے اور معافی مانگیں اور اگر رانا شمیم ایسا کریں تو میں بھی کہوں گا کارروائی نہ کریں۔

 

یہ بھی دیکھیں

رحیم یار خان : دو قبیلوں میں تصادم کے دوران آٹھ افراد جاں بحق

رحیم یار خان:رحیم یار خان کے نزدیک کچھ ماچھک میں دو قبیلوں میں تصادم کے …