جمعہ , 19 اپریل 2024

وزیراعظم کا دورہ کراچی،ایم کیو ایم رہنماؤں سے تحریک عدم اعتماد پر تبادلہ خیال

کراچی: وزیر اعظم عمران خان نے آج کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کے مرکز بہادر آباد میں ایم کیو ایم رہنماؤں سے تحریک عدم اعتماد پر تبادلہ خیال کیا۔

ایم کیو ایم قیادت سے ملاقات کے بعد وزیراعظم گورنر ہاؤس روانہ ہوگئے جہاں وہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان ایم کیو ایم پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کی قیادت سے ملاقات کے لیے پارٹی کے عارضی مرکز بہادرآباد پہنچے تھے۔

وفاقی وزرا کے ہمراہ وزیر اعظم آج اپنے اتحادیوں، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے ملاقاتیں کرنے کے لیے کراچی پہنچے ہیں۔

وزیراعظم کے ہمراہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر اسد عمر، وزیر برائے بحری امور علی زیدی اور گورنر سندھ عمران اسمعٰیل موجود ہیں, وزیراعظم کا 3 ماہ بعد کراچی کا یہ دوسرا دورہ ہے۔

ایم کیو ایم کے مرکز بہادرآباد میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔

دفتر وزیراعظم سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم صوبہ سندھ میں پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے عوامی نمائندوں، پی ٹی آئی کے منتخب اراکین سندھ اسمبلی اور پارٹی کی صوبائی و ڈویژنل سطح کی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔

پی ٹی آئی سندھ کی قیادت نے کہا کہ وزیراعظم اپنے ایک روزہ دورے کے دوران حکومتی اتحادیوں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کریں گے۔

پارٹی کے ترجمان ایم پی اے ارسلان تاج نے کہا کہ وزیراعظم پارٹی کی سندھ ایڈوائزری کونسل کے اجلاس کی صدارت بھی کریں گے اور پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سے خطاب بھی کریں گے۔

کراچی کے دورے کے موقع پر سیاسی مصروفیات کے علاوہ وزیر اعظم پی ٹی آئی حکومت کے فلیگ شپ پروگرام کے 3 سال مکمل ہونے پر مستحقین میں احساس کارڈ بھی تقسیم کریں گے۔

ایک بیان کے مطابق تقریب گورنر ہاؤس میں ہوگی، وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت اور سماجی تحفظ سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر انہیں سندھ میں احساس کے انسداد غربت پروگرام پر بریفنگ دیں گی۔

تحریک عدم اعتماد
گزشتہ روز اپوزیشن نے بالآخر حکومتی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرادی۔

اپوزیشن نے دستاویزات کے 2 سیٹ جمع کرائے ہیں، ایک آئین کے آرٹیکل 54 کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے ریکوزیشن کرنے کے لیے اور دوسری قرارداد میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

آرٹیکل 54 کے مطابق اگر کم از کم 25 فیصد ارکان اس پر دستخط کریں تو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے، دستخط کے بعد اسپیکر کے پاس اجلاس بلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ 14 دن کا وقت ہوتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے قانون ساز نوید قمر نے بتایا کہ ریکوزیشن پر 140 ایم این ایز کے دستخط تھے۔

آئین کے آرٹیکل 95 اور ہاؤس کے طریقہ کار کے قواعد کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پر قومی اسمبلی کے کم از کم 20 فیصد ارکان کے دستخط ہونے چاہیے، جس کا مطلب ہے کہ ووٹنگ کے لیے کم از کم 68 ارکان کے دستخط ہونے چاہیے۔

قواعد کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے بعد سیکرٹری عدم اعتماد کی قرارداد کا نوٹس بھیجے گا جسے اگلے دن پیش کیا جائے گا۔

قواعد کے مطابق جس دن قرارداد پیش کی جاتی ہے اس کے بعد 3 دن گزر جانے سے پہلے یا 7 دن بعد اس پر ووٹنگ نہیں کی جائے گی۔

لہٰذا اسپیکر کو 22 مارچ تک ایوان زیریں کا اجلاس بلانا ہوگا، جب کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 26 مارچ سے 30 مارچ کے درمیان ہوسکتی ہے۔

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے مشترکہ اپوزیشن کو سادہ اکثریت درکار ہے، یعنی اسے کُل 342 میں سے 172 ایم این ایز کی حمایت درکار ہے۔

ایوان میں اس وقت اپوزیشن کے پاس حکومت کے 179 کے مقابلے میں کل 162 ارکان ہیں، تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت اپوزیشن رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کو تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے کچھ حکومتی ایم این ایز سمیت 180 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

یہ بھی دیکھیں

رحیم یار خان : دو قبیلوں میں تصادم کے دوران آٹھ افراد جاں بحق

رحیم یار خان:رحیم یار خان کے نزدیک کچھ ماچھک میں دو قبیلوں میں تصادم کے …