ہفتہ , 20 اپریل 2024

جاپان کا بھارت پر روسی حملے کے خلاف سخت مؤقف اپنانے کے لئے زور

ٹوکیو: جاپان کے وزیراعظم فومیو کشیدا نے بھارتی ہم منصب نریندر مودی پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین پر روس کے حملے پر سخت مؤقف اختیار کریں تاہم نئی دہلی میں دونوں ممالک کے درمیان ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں ماسکو کے اقدام کی مذمت سے گریز کیا گیا ہے۔

جاپان، آسٹریلیا اور امریکا کے برعکس کواڈ الائنس کے چوتھے رکن بھارت نے یوکرین پر روسی حملے کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارداد میں حصہ نہیں لیا جبکہ روس سے تیل کی خریداری جاری رکھی۔

فومیو کشیدا نے مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ انہوں نے نریندر مودی کے ساتھ روسی حملے کے حوالے سے تفصیل سے بات کی جس سے عالمی آرڈر کی بنیادوں کو جھنجھوڑ دیا ہے اور اس سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔‎

تاہم نریندر مودی نے یوکرین کا ذکر کئے بغیر کہا کہ تشدد کو فوری طور پر رکنا چاہئے اور مذاکرات کے ذریعے تنازع کو حل کرنا چاہیے۔

لیکن مودی نے یوکرین کا براہ راست کوئی تذکرہ نہیں کیا اور بعدازاں ان کے مشترکہ تحریری بیان میں صرف تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ تنازع کے حل کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے کسی بھی ملک کا نام لیے بغیر تمام ممالک پر دھمکی یا طاقت کے استعمال اور طاقت کے توازن کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش کے بغیر بین الاقوامی قانون کے مطابق تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

رواں ماہ کے آغاز میں دیگر کواڈ لیڈرز، امریکی صدر جو بائیڈن اور آسٹریلیا کے وزیراعظم سکاٹ موریسن بھی نریندر مودی کو یوکرین کے معاملے پر اپنے مؤقف پر قائل کرنے میں ناکام رہے۔

اس وقت کواڈ کے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے روس کی مذمت کے بغیر یوکرین میں جاری تنازع اور انسانی بحران پر تبادلہ خیال کیا اور اس کے وسیع تر مضمرات کا جائزہ لیا۔

ایک علیحدہ بھارتی اعلامیے نے واضح طور پر اس بات پر زور دیا کہ کواڈ الائنس کو ہند-بحرالکاہل خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے اپنے بنیادی مقصد پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔

بھارت کے تحفظات
نریندر مودی اور سکاٹ موریسن پیر کو تجارت پر مرکوز ایک ورچوئل سمٹ بھی منعقد کرنے والے ہیں، جس میں آسٹریلوی وزیر اعظم اپنے بھارتی ہم منصب پر دوبارہ یوکرین پر مغربی کیمپ میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

روس، سوویت دور سے بھارت کو ہتھیاروں کا سب سے بڑا فراہم کنندہ رہا ہے لیکن حالیہ دور میں تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے چین کے پیش نظر بھارت کو کواڈ الائنس اور خطے کے دیگر ممالک سمیت دنیا بھر سے مزید تعاون کی ضرورت ہے۔

نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان 2020 میں ان کی متنازعہ ہمالیائی سرحد پر ہونے والی جھڑپ کے بعد سے کشیدگی عروج پر ہے جس میں کم از کم 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی مارے گئے تھے۔

اس کے بعد سے دونوں نے اضافی فوجی ہتھیار وہاں بھیجے، بھارت نے اپنا بیشتر روسی ساختہ اسلحہ اور ہزاروں اضافی فوجی وہاں بھیجے ہیں۔

چین کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو کواڈ کی اہم تشویش کے طور پر دیکھتے ہوئے، فومیو کشیدا اور نریندر مودی نے کسی بھی ناجائز قبضےسے آزاد ہند-بحرالکاہل کے لیے اپنے مشترکہ وژن کی تصدیق کی۔

2017 کے بعد کسی جاپانی وزیر اعظم کے بھارت کے پہلے دورے کے بعد جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ جاپان اگلے 5 سالوں میں بھارت میں سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کے لیے 5 ٹریلین ین وقف کرے گا۔

بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے میانمار کی صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور تشدد کے خاتمے، حراست میں لیے گئے تمام افراد کی رہائی اور جمہوریت کی راہ پر واپسی کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مزید تعاون کا عزم بھی کیا اور شمالی کوریا کے عدم استحکام پیدا کرنے والے بیلسٹک میزائل لانچ کی مذمت کی۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …