ہفتہ , 20 اپریل 2024

یہ سال پیداوار، علم کی بنیاد اور ملازمت کی تخلیق کا سال ہے: آیت اللہ خامنہ ای

تہران: قائد اسلامی انقلاب نے نئے ایرانی سال کو پیداوار، علم کی بنیاد اور ملازمت کی تخلیق کا سال قرار دیا۔

ان خیالات کا اظہار آیت اللہ العظمی "سید علی خامنہ ای” نے اتوار کے روز ایرانی نئے سال کی آمد پر مبارکباد دیتے ہوئے کیا۔

سنہ 1401 ہجری شمسی کے آغاز کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حسب ذیل ہے؛

بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین و صلّی اللّہ علی محمّد و آلہ الطاھرین سیّما بقیۃ اللہ فی‌الارضین

یا مقلّب القلوب والابصار، یا مدبّر اللّیل و النّہار، یا محوّل الحول و الاحوال حوِّل حالنا الی احسنِ الحال

میں عید نوروز، نئے سال، نئي قدرت، نئے دن اور نئی دور کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو اس سال، نصف شعبان کے ایام سے متصل ہے جو عالم وجود کے خورشید فروزاں، حضرت بقیۃ اللہ، امام زمانہ ارواحنا فداہ سے متعلق ہیں۔

میں ایران کی عظیم قوم اور تمام ہمدل و یکساںیت رکھنے والی قوموں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

خاص طور پر شہیدوں کے محترم اہل خانہ کو، جو بڑے ہی صابر اور گرانقدر ہیں۔ خداوند عالم ان محترم گھرانوں کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ باقی رکھے۔

جنگ میں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجیوں اور ان کے فداکار اور صابر اہل خانہ اور سابق فوجیوں کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اسی طرح مختلف میدانوں میں چاہے وہ حفظان صحت کا میدان ہو، چاہے سیکیورٹی کا میدان ہو، چاہے استقامت کا میدان ہو، چاہے علم و سائنس کا میدان ہو، ان سبھی میدانوں میں ایرانی قوم کی دل سے خدمت کرنے والوں اور ایثار پیشہ افراد کی خدمت میں بھی اس مبارک و مسعود دن اور عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ایک سال اور گزر گيا۔ سنہ 1400 (ہجری شمسی 21 مارچ 2021 الی 20 مارچ 2022) بھی زندگی میں فطری طور پر پائی جانے والی اپنی تمام تر تلخیوں، شیرینیوں اور نشیب و فراز کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ گيا۔ زندگی، انہی نشیب و فراز اور تلخیوں اور شیرینیوں کا مجموعہ ہے۔ میں اشارہ کروں گا ایرانی قوم کے کچھ نمایاں واقعات کا، کچھ فرازوں کا، کچھ شیرینیوں کا، جن میں سے ایک الیکشن تھا۔ انتخابات واقعی بہت اہم تھے، بڑے تھے۔ سنہ 1400 (ہجری شمسی) کے اوائل میں وبائی بیماری، کورونا کی بیماری کی شدت کے باوجود، لوگ پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچے اور ووٹ دیا۔ یہ بہت اہم ہے۔ ان حالات میں دو لوگوں کا بھی ایک جگہ اکٹھا ہونا خطرناک تھا۔ ان دنوں میں جب ایک دن میں ہمارے سیکڑوں لوگوں کی شاید پانچ سو لوگوں کی، چھے سو لوگوں کی یا شاید اس سے بھی زیادہ لوگوں کی موت ہو رہی تھی۔ ایسے حالات میں الیکشن ہوا۔ لوگوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور پھر ایک تازہ دم حکومت میدان میں آئی۔ جیسا کہ قرائن سے پتہ چلتا ہے، یہ ایک عوامی حکومت ہے جو عوامی اقدامات اور عوامی اہداف کی عاشق ہے۔ یہ حکومت، پچھلی محترم حکومت سے الگ ڈگر پر آگے بڑھ رہی ہے اور بحمد اللہ اس نے عوام میں امید جگائی ہے۔ یہ ایرانی قوم کے نمایاں اور اہم واقعات میں سے ایک تھا۔

ایک دوسرا موضوع کورونا کی وبا سے سنجیدہ مقابلہ تھا۔ حقیقی معنی میں جنگ کی گئی، مقابلہ کیا گيا۔ ایک وقت تو اس خطرناک بیماری سے یومیہ اموات کی شرح کئي سو سے گھٹ کر مثال کے طور پر بیس اور اٹھارہ تک پہنچ گئي، یہاں تک پہنچ گئی تھی۔ حالانکہ یہ تعداد پھر تھوڑی سی بڑھ گئی لیکن آج کی صورت حال، جب بحمد اللہ کورونا ویکسین تک سب کی رسائي ہے اور ان دنوں کے حالات میں بڑا فرق ہے۔

ایرانی قوم کی ایک اور شاندار کامیابی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت رہی۔ ملک میں کئی طرح کی ویکسین کی تیاری، جن میں سے بعض کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گيا؛ اور مختلف سائنسی و تکنیکی کارنامے، ویکسین سے لے کر سیٹلائٹ تک، تمام میدانوں میں بحمد اللہ ملک نے اہم کام انجام دیے۔ یہ سنہ 1400 کے بڑے نمایاں واقعات تھے۔ ملک کے اندر دوسرے بھی مختلف واقعات رونما ہوئے، دوسرے بھی بہت سے خوش آئند واقعات ہوئے۔

عالمی میدانوں میں بھی ایسا ہی تھا۔ سنہ 1400 کے سب سے اہم شیریں واقعات میں سے ایک یہ تھا کہ امریکیوں نے ابھی حال ہی میں اعتراف کیا، اپنی زبان سے اقرار کیا کہ ایران کے خلاف شدید ترین دباؤ میں، انھیں ذلت آمیز شکست ہوئي ہے۔ "ذلت آمیز” کا لفظ خود امریکیوں نے استعمال کیا ہے۔ یہ بڑا اہم واقعہ ہے۔ ایرانی قوم، فاتح رہی۔ ایرانی قوم کو یہ توفیق حاصل ہوئی۔ کوئی بھی اکیلے اس کا کریڈٹ نہیں لے سکتا۔ پوری ایرانی قوم کی استقامت اس بڑی فتح پر منتج ہوئي۔ بہت سے دوسرے واقعات بھی رونما ہوئے۔ خواہ ہمارے قریب ہوں یا دور ہوں۔ ان سارے واقعات نے، سامراج کے مقابلے میں ایرانی قوم کے راستے کی درستگی کو ثابت کیا۔ اس نے دکھا دیا کہ صحیح راستہ وہی ہے، جس پر ایرانی قوم، سامراج کے خلاف چل رہی ہے۔ تو یہ شیریں باتیں تھیں۔

کچھ تلخ تجربات بھی رہے، ان تلخیوں کے درمیان میری نظر میں جو سب سے سخت اور اہم ہے، اسے میں عرض کرتا ہوں اور وہ عوام کی معاشی تنگی، مہنگائی، افراط زر اور اسی طرح کی چیزیں تھیں جن کا یقینی طور پر علاج ہونا چاہیے۔ ان کا علاج کیا جا سکتا ہے، معاشی مسائل ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اس سال ان میں سے کچھ برطرف ہو جائيں گے۔ یہ سارے مسائل یکبارگی ایک ساتھ ختم نہیں ہو سکتے، بتدریج ختم ہوں گے۔ یہ بات حقیقت پسندانہ نہیں ہے کہ انسان جلد بازی کرے اور کہے کہ جی نہیں، فوری طور پر انھیں دور ہونا چاہیے۔ ان شاء اللہ ہمیں امید ہے کہ ان میں سے بعض مسائل، سنہ 1401 میں جو صدی، ہجری شمسی صدی کا پہلا سال بھی ہے، ان شاء اللہ برطرف ہو جائيں گے۔

پچھلے برسوں میں ہم نے ہر سال، سال کے نعرے کے نام سے ایک عنوان پیش کیا تاکہ عہدیداران، خاص طور پر حکومت اور اس کے ذیل میں مقننہ اور عدلیہ اور اسی طرح عوام، جہاں تک عوام سے براہ راست تعلق ہوتا ہے، اس سمت میں آگے بڑھیں۔ کچھ برسوں میں اس سلسلے میں اچھی کامیابیاں حاصل ہوئيں۔ کچھ برسوں میں کچھ مقامات پر تساہلی بھی ہوئی ہے۔ سنہ 1400 میں ہم نے پیداوار، حمایت اور رکاوٹوں کے ازالے کا نعرہ دیا تھا۔ بڑی حد تک اچھے کام انجام پائے جو اب بھی جاری ہیں اور انھیں آئندہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ ان کچھ برسوں میں حقیر نے سال کے نعرے کے لیے کسی ایک شرط اور صفت کے ساتھ زیادہ تر ‘پیداوار’ پر زور دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیداوار، ملک کے معاشی مسائل کے حل کی کنجی ہے۔ در حقیقت یہ ملک کے لیے معاشی سختیوں اور دشواریوں سے عبور کا اصلی راستہ ہے۔ یعنی ملک کے اہم ترین معاشی مسائل کو پیداوار، قومی پیداوار کی ترویج اور قومی پیداوار کی رونق سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پیداوار کی ماہیت ہی یہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے پیداوار پر تاکید کی۔ یعنی یہ معاشی پیشرفت کو فروغ دیتی ہے، روزگار پیدا کرتی ہے، افراط زر کو کم کرتی ہے، فی کس آمدنی کو بڑھاتی ہے، عمومی آسائش پیدا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے نفسیاتی اثرات بھی ہیں۔ یہ قومی خود اعتمادی کو بڑھاتی ہے، قوم میں عزت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ پیداوار اس طرح کی اکسیر ہے۔ اگر بہترین طریقے سے آگے بڑھے تو ان شاء اللہ قومی پیداوار اس طرح کی اہم چیز ہے۔ لہذا ہم نے پچھلے کئی برس سے پیداوار کے مسئلے پر زور دیا ہے۔ اس کا اثر بھی ہوا، بحمد اللہ اس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ اس سال بھی میں پیداوار پر ہی تاکید کرنا چاہتا ہوں، البتہ پیداوار کا ایک نیا پہلو اور ایک نیا چہرہ پیش کرنا چاہتا ہوں اور وہ اس پیداوار سے عبارت ہے جس میں دو خصوصیات ہوں: ایک یہ کہ روزگار پیدا کرنے والی ہو، دوسرے یہ کہ نالج بیسڈ ہو۔ نالج بیسڈ پیداوار ہو اور سائنس، ماڈرن سائنس پر منحصر ہو، سائنسی پیشرفت پر استوار ہو اور ایسی پیداوار ہو جو روزگار پیدا کرے۔ البتہ ہر طرح کی پیداوار، روزگار پیدا کرنے والی ہوتی ہے لیکن بعض پروڈکشنز۔ بہت زیادہ سرمایہ کاری کے باوجود، زیادہ روزگار پیدا نہیں کرتے لیکن بعض ایسے نہیں ہوتے، وہ روزگار پیدا کرتے ہیں۔ میں ان شاء اللہ کل کی تقریر میں اس کے بارے میں کسی حد تک تفصیلات عرض کروں گا۔ اگر ہم نالج بیسڈ پروڈکشن کو کسوٹی قرار دیں اور ایسی پیداوار کی کوشش کریں جو ان خصوصیات کے ساتھ نالج بیسڈ ہو، جن کا ذکر میں ان شاء اللہ سال کے پہلے دن کی تقریر میں کروں گا تو میرا خیال ہے کہ ہم اپنے ان تمام معاشی اہداف میں ان شاء اللہ ایک اچھی حرکت اور باقاعدہ محسوس ہونے والی پیشرفت دیکھیں گے۔ روزگار پیدا کرنے کا مسئلہ بھی اسی طرح کا ہے۔ بنابریں اس سال ہمارا نعرہ ہے: ‘روزگار پیدا کرنے والی نالج بیسڈ پیداوار’۔ یہ پیداوار ہے۔ البتہ میں تاکید کے ساتھ درخواست کرتا ہوں، میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ لوگ صرف اس بات پر اکتفا نہ کریں کہ مختلف اداروں کے لیٹر ہیڈز کے اوپر اس عبارت کو لکھ دیں یا مثال کے طور پر ایک بورڈ تیار کر دیں اور اسے سڑک پر لگا دیں۔ یہ سب کام نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ حقیقی معنی میں اس نعرے کے لیے پالیسی تیار کی جائے۔ البتہ یہ حکومت، جہاں تک میں مشاہدہ کر رہا ہوں، صدر محترم اور ان کے رفقائے کار جتنی تندہی سے کام کر رہے ہیں، ان شاء اللہ پیشرفت حاصل کرے گی۔ یعنی خداوند عالم کی توفیق سے یہ نعرہ صرف نعرہ نہیں رہے گا لیکن جتنا زیادہ کام کیا جائے گا، جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی، اتنا ہی بہتر ہوگا۔

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم، اس سال میں، اس عید میں ایران کی عزیز قوم کے لیے، اس ایک سال کی مدت میں نیکی کا ارادہ فرمائے گا، لوگوں کو خوشیاں دے گا، ان کی زندگيوں کو شیریں کرے گا، لوگوں کا دل خوش کرے گا اور ہمارے عزیز شہیدوں کی پاکیزہ روحیں، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی روح مطہر ان شاء اللہ خوش ہوگی اور خداوند متعال ہم سب کا سلام، ہم سب کی عقیدت اور ہم سب کا اخلاص، بقیۃ اللہ الاعظم امام زمانہ ارواحنا فداہ کی پاکیزہ خاک قدم تک پہنچائے گا، ان شاء اللہ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …