بدھ , 24 اپریل 2024

فلسطین؛ فتح قریب کی بشارت

تحریر: ڈاکٹر سعد اللہ زارعی

تینتالیسویں عالمی یوم القدس کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں – جو فارسی میں شائع ہؤا، – نیز اپنے خطاب میں، جو عربی زبان میں نشر ہؤا – ایک طرف سے غائرانہ انداز سے، اہم ترین موضوعات کی فہرست پر روشنی ڈالی اور دوسری طرف سے بہت حد تک مقاومت کے تسلسل کے لئے راہ و روش واضح کر دی۔ آپ کا پیغام اور خطاب انتہائی جدید اور بدیع نکات پر مشتمل تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں بھی اور فلسطین کی موجودہ صورت حال کے سلسلے میں بھی، ذیل کے چند نکتے بہت اہم ہیں۔
1۔ فلسطین پر تدریجی قبضہ ایک بین الاقوامی منصوبے کے تحت سنہ 1920ع‍ سے سنہ 1967ع‍ کے درمیان، – اس زمانے کی عالمی طاقتوں کے درمیان طے شدہ متفقہ سمجھوتے کے معنی میں – انجام کو پہنچا اور اس کا مقصد صرف سرزمین فلسطین پر قبضے تک محدود نہیں تھا، بلکہ پوری اسلامی دنیا پر قبضہ – بالفاظ دیگر مغربی ایشیا پر تسلط – مقصود تھا۔ چنانچہ یہودی سرغنوں نے ابتداء ہی سے “نیل سے فرات” تک کے علاقوں پر قبضے کو اپنا تزویراتی منصوبہ قرار دیا تھا، اور حالانکہ اگر یہ منصوبہ بین الاقوامی نہ ہوتا، تو جو ریاست اسی جغرافیائی خطے میں قائم کرنا مقصود تھی اس کے مقاصد کو صیغۂ راز میں رہنا چاہئے تھا۔ اس منحوس ریاست کے قیام کے پہلے دنوں میں ہی اس کے مقاصد کے آشکارا اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے بانی منصوبے کے حتمی نفاذ کے لئے مغرب کی قطعی پشت پناہی سے مطمئن تھے۔
جعلی ریاست “اسرائیل” کی تاسیس ایک برطانوی پروگرام سے شروع ہوئی اور ایک 50 سالہ عمل سے گذری۔ سنہ 1905ع‍ سے سنہ 1908ع‍ تک برطانیہ کے وزیر اعظم رہنے والے سر ہنری کیمبل بینرمین (Henry Campbel BannerMan) کا کہنا ہے: “اہم ترین تزویراتی آبی گذرگاہیں عالم اسلام میں واقع ہیں۔ وہاں اہم ترین قدرتی وسائل ہیں، اگر ہم اس علاقے میں اپنے لئے “جائے پا” (قدم جمانے کی جگہ) تلاش نہ کریں، تو دنیا پر اپنی سیادت و آقائی کو اختتام پذیر سمجھیں”۔ اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ برطانیہ بیسویں صدی کے آغاز پر ہی زوال و انحطاط کی اترائی پر تھا۔ کیمبل بینرمین نے کمزوری اور ضعف سے نکلنے کے لئے، عالم اسلام کی تزویراتی آبی گذرگاہوں اور زیر زمین قدرتی وسائل کی طرف اشارہ کیا اور اسی حال میں اس تسلط کی ضمانت فراہم کرنے کے لئے “قدم جمانے” اور درحقیقت لوٹ مار کرنے کے لئے قدم رکھنے کی جگہ کی ضرورت کی بات کی۔ اس سے پہلے برطانوی سیاستدان سسیل روڈس (Cecil Rhodes) نے – جو رہوڈیشیا (Rhodesia) [موجودہ زیمبابوے) کا نوآبادیاتی بانی سجھا جاتا تھا اور یہودی تئوڈور ہرتزل کا قریبی ساتھی تھا – انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں اسرائیل کی تشکیل کو “مشرق پر تسلط جمانے کے لئے مغرب کے لئے واحد راہ حل” قرار دیا تھا، اور “راہ حل” کو بعد میں کیمبل بینرمین نے “انگلیس کے لئے “جائے پا” (قدم رکھنے کی جگہ) کا عنوان دیا۔
جب ہم اس جعلی ریاست کی تشکیل کی کیفیت پر بھی نظر ڈالتے ہیں، اس کے معینہ اہداف کو بھی دکھتے ہیں؛ اسرائیل (یعنی یہودی ایجنسی Jewish Agency for Israel) نے فلسطین پر قبضہ کرنے کے لئے نیا ادب اختراع کیا تھا اور امریکہ اور یورپ کو اس جعلی ادب کا پابند بنایا؛ یعنی قوم یہود کے لئے “مظلومیت کی اداکاری”، “نازیوں کی طرف سے یہودیوں پر شدید دباؤ” اور “یہودیوں کی مسالمت آمیزی” وہ موضوعات تھے جنہیں سیاسی، تشہیری، فنکارانہ اور قانونی سطوح پر پوری مغربی دنیا کی حمایت حاصل ہوئی۔
بطور مثال ہالی ووڈ نے فنکاری (Art) کے شعبے میں “بن ہور” نامی فلم بنائی جو تاریخِ سینما کی ایک زندہ جاوید کاوش ہے جو دکھانا چاہتی ہے کہ “یہودی مہربان، محنت کش، مؤمن اور مظلوم ہیں”؛ اور اسی حال میں اگر وہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں گے اور مظلوموں کے لئے پناہ گاہ بن جائیں گے! قانونی میدان میں بھی بین الاقوامی طاقتوں نے اور ان کے آس پاس کی ریاستوں نے بےشمار قوانین منظور کر دیئے جو سرزمین فلسطین میں اسرائیل کی غیر مشروط تشکیل کی تائید برتے تھے۔ ہالوکاسٹ کا جعلی بین الاقوامی قانون ان ہی قوانین میں سے ایک ہے۔
عالم اسلام پر مغرب کا تسلط یقینی بنانے کے مشن پر پورا اترنے کے لئے، مغربی ممالک نے جعلی اسرائیلی ریاست کے لئے ایک بڑی طاقت جتنی بڑی فوج اور حکومت کو مد نظر رکھا۔ اس کے لئے 1300000 فوجی نفری اور ایک بڑی طاقت کے لئے ضروری سراغرسانی اور نگرانی کی صلاحیت کے حامل نظام، کا انتظام کیا گیا۔ چنانچہ عالم اسلام کو صرف فلسطین پر قبضہ کرنے والی ایک ریاست اور غاصب عوام ہی کا سامنا نہ تھا – جو بجائے خود ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے – بلکہ یہاں مسلمانوں کو پورے عالم اسلام اور اس کے تمام تر وسائل کے خلاف ایک عظیم عالمی سازش کا سامنا تھا، اور یہ سازش 27000 مربع کلومیٹر کے رقبے پر ایک جعلی ریاست کے قیام تک محدود نہیں تھی۔
2۔ اسرائیل کے 120 سالہ پراجیکٹ کی شکست، در حقیقت اسی بین الاقوامی پراجیکٹ [یا سازش] کی شکست ہے چنانچہ فلسطین کی انقلابی تبدیلیوں کو – دوسری بہت سی تبدیلیوں کی طرح – محدود جغرافیائی تبدیلی کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے۔
یہاں عالم اسلام اور اس کے عظیم رقبے اور آبادی کا فلسطین پر قبضہ جمانے والی آبادی کے ساتھ موازنہ کرنا، درست نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں ایک ریاست اور اس کی آبادی کا مقابلہ نہیں بلکہ پوری استکباری دنیا کا مقابلہ درپیش تھا جو اسلام اور اسلامی ممالک کے خلاف میدان میں آئی تھی چنانچہ جو سازش تیار کی گئی تھی وہ پوری مسلم ریاستوں کے خلاف لڑنے پر زور دیتی تھی۔ اس حساب سے اتنی وسیع استکباری سازشوں کے باوجود، فلسطین کی بقاء، ایک معجزے سے کم نہیں ہے؛ اب تو یہ معجزہ اور بھی نمایاں ہو رہا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج اسلامی مقاومت (مزاحمت) کے ذریعے اس عالمی سازش کی بنیادیں اکھڑ رہی ہیں۔ آج یہ جو بین الاقوامی طاقتیں – جنہوں اس جرائم پیشہ ریاست کی بنیاد رکھی ہے اور عشروں سے اس کی فیصلہ کن حمایت کرتی رہی ہیں بھی – اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ یہ ریاست مغربی ایشیا پر ان کا تسلط جمانے کی قابل نہیں ہے، اور علاوہ ازیں، یہ ریاست اب اپنے تحفظ سے بھی عاجز، اور ان کے کندھوں پر “ایک بھاری بوجھ” میں بنی ہوئی ہے [اور جو ریاست ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے بنائی گئی تھی، اس کا تحفظ اب ان کے لئے بھاری پڑ رہا ہے]۔
3۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے عالمی یوم القدس کے موقع پر اپنے خطاب میں بھی اور اپنے جاری کردہ بیان میں بھی، اپنی توجہ چند کلیدی اصطلاحات پر مرکوز کی ہے: “فلسطینی عوام کا شکست ناپذیر ارادہ”، نام نہاد “شکست ناپذیر اسرائیلی فوج” کے مقابلے میں رائج کرنا، “جہاد”، “شہر جنین کی اٹھان”، اور “اسرائیل کے اہم ترین حامی ‘امریکہ’ کی پے در پے ناکامیاں”۔ حقیقت یہ ہے کہ جعلی اور غاصب صہیونی ریاست کی سنہ 2006ع‍ سے 2021ع‍ تک کی جنگوں کے نتائج نے صہیونی فوج سے “شکست ناپذیر فوج” کا عنوان سلب کر دیا؛ حالانکہ غاصب ریاست نے اس اپنی فوج کے اس لقب کے ذریعے اس قدر خوف و ہراس پھیلا دیا تھا کوئی بھی اپنے اندر اس فوج سے لڑنے کی ہمت نہيں پاتا تھا اور عام احساس یہ تھا کہ اس ریاست کے ساتھ کوئی بھی جنگ مخالف فریق کی شکست پر ہی منتج ہوگی۔ اسرائیلی فوج کی شکست ناپذیری – سنہ 1977ع‍ سے، اور اس سال 19 ستمبر کو اس وقت کے مصری آمر انورالسادات کے دورہ تل ابیب کے بعد سے – عرب-اسرائیل مذاکرات کا بنیادی ڈھانچہ بن گئی۔ اس وقت یہ تصور مر کر ختم ہو چکا ہے اور اس کے باقیات بھی شمشان گھاٹ میں جل کر راکھ ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف سے لبنانی، فلسطینی اور دوسری اقوام نے اپنا “شکست ناپذیر ارادہ” ثابت کرکے دکھایا ہے؛ یعنی یہ کہ مسلم اقوام اور بالخصوص فلسطینی قوم کے دلوں سے غاصب صہیونی ریاست کا خوف ختم ہونے کے ساتھ ہی فلسطین پر قابض صہیونیوں اور ان کے بیرونی سرپرستوں نیز ان کے علاقائی غلاموں کے دلوں میں فلسطینی اور لبنانیوں کی مقاومت اور سرفروش مجاہدوں کا خوف گھر کر گیا ہے جس نے انہیں مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، اور صورت حال یہ ہے کہ فلسطینی مقاومت کی “سیف القدس” نامی کاروائی اور بئرالسبع کی طرف کئی میزائل داغے جانے کے نتیجے میں کئی لاکھ غاصب یہودی 1948ع‍ کی مقبوضہ سرزمینوں کے شمال کی طرف بھاگ گئے۔
“جنین” بھی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے جہادی ادب میں ایک نئی اصطلاح کے عنوان سے ابھر کر سامنے آیا۔ جنین مغربی کنارے کا ایک علاقہ ہے جو اس میں واقع پناہ گزین کیمپ کے لئے مشہور ہے اور غاصب ریاست کے سابقہ جرائم و مظالم کی وجہ سے کسی وقت “اسرائیل کے مقابلے میں فلسطین کی شکست کی علامت” بنا ہؤا تھا۔ لیکن اس نے غاصب ریاست کے خلاف اقدامات کرکے اس ریاست کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا؛ یہاں تک کہ حالیہ ہفتوں میں اسرائیل کے خلاف مؤثر کاروائی کرنے والی ایک جہادی ٹیم کا تعلق جنین سے ہی تھا۔ جنین کیمپ میں تقریبا 15000 فلسطینی سکونت پذیر ہیں اور جنین مغربی کنارے کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ یہ حیفا، ناصرہ، نابلس اور قدس شریف کی طرف جانے والے راستوں کا سنگم ہے۔ چنانچہ جنین کے مجاہدین کے سرگرم عمل ہونے کا اصل پیغام یہ ہے کہ صہیونی ریاست کے مرکزی علاقوں کا امن برباد ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے قدس شریف کے مشرقی علاقے کے مجاہد نوجوانوں کے مقابلے میں کچھ نرمی نرمی برتنے والا غاصب اسرائیل جنین کے مجاہد نوجوانوں کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آیا۔ اسی اثناء میں اسرائیل یہ بھی جانتا ہے جنین ایک دھماکہ خیز فتیلا (detonating wick) ہے جو پورے مغربی کنارے اور مشرق قدس کو آگ کے ڈھیر میں بدل سکتا ہے۔
خطے میں امریکی پالیسیوں کی مطلق شکست نے – جو یوم القدس کے موقع پر امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب اور بیان میں بھی تفصیلا زیر بحث آئی – ایک طرف سے غاصبوں کے تن بدن پر لرزہ طاری کردیا ہے تو دوسری طرف سے فلسطینیوں کے درمیان دوہری امید کی نئی لہر دوڑائی ہے اور ان کی مزآحمت میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ یہ پرامید اور متحرک فلسطینی فضا اور وہ چاروں طرف سے بند مایوسی کی اسرائیل فضا، مستقبل کے افق کے روشن کر چکی ہے۔ چنانچہ غاصبوں کے لئے بہترین حل – سید حسن نصر اللہ کے صادقانہ اور محکم الفاظ میں – یہ ہے کہ “وہ ہر ممکن طریقے اور وسیلے سے، اپنے آبائی ممالک میں پلٹ کر چلے جائیں”؛ [کہ یہاں کے باشندے جاگ گئے ہیں اور اس سرزمین میں مزید کسی غاصب اور قابض کی کوئی گنجائش نہیں ہے]۔

ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …