جمعہ , 19 اپریل 2024

پارلیمان میں موجود جماعتوں کا سڑکوں پر احتجاج درست ہے؟

تحریر: عبداللہ جان

گذشتہ 20 سال میں سیاسی مارچز اور دھرنوں کا سلسلہ پاکستان میں عام ہو چکا ہے، جن میں جہاں ہزاروں شہری شرکت کرتے ہیں، وہیں ہزاروں افراد سڑکوں یا موبائل سگنلز کی بندش سے یا دھرنے پُرتشدد ہونے پر جانی اور نجی املاک کو نقصان سے متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان کی تقریباً ہر چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعت اپنے مطالبات منوانے کی خاطر دھرنوں یا مارچ کا سہارا لے چکی ہے اور نتائج سے قطع نظر عوام کی بڑی تعداد نے ان احتجاجی مظاہروں میں حصہ بھی لیا۔

دور حاضر کا آخری مارچ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا تھا، جو انہوں نے جمعرات (26 مئی) کو علی الصبح مزید ایک دوسرے احتجاجی مارچ کی دھمکی کے ساتھ ختم کرنے کا اعلان کیا۔

عمران خان کا حالیہ ’حقیقی آزادی مارچ‘ ان کا پہلا پاور شو نہیں تھا، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، جمیعت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان بھی مختلف اوقات میں دھرنوں اور مارچ کا کھیل کھیلتی رہی ہیں۔

پاکستان یا اس جیسے دوسرے ترقی پذیر ممالک کے برعکس یورپ اور امریکہ کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں سڑکوں پر سیاسی پارٹیوں کے احتجاج کی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔

مغربی معاشروں میں انقلابوں کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث احتجاج کو عوام کا جمہوری حق تصور کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے شہری حکومتی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں۔

تاہم مغرب کے جمہوری معاشروں میں ملكی پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے لیے سڑکوں پر احتجاج کے حق کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، اور پارلیمنٹ میں ووٹرز کے مسائل اٹھانے اور رائے کے اظہار کو ترجیح دی جاتی ہے۔

اس کی مثال دیتے ہوئے لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) میں پولیٹکل سائنس کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں: ’اگر معاملات امریکی کانگریس میں حل ہو رہے ہیں تو وہاں مسائل کو سڑکوں پر لانے کی ضرورت رہ ہی نہیں جاتی۔‘

اسی طرح سماجی علوم کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلام کا کہنا تھا کہ احتجاج کا کلچر غیر جمہوری طریقوں کے باعث فروغ پاتا ہے۔

ایسی صورت حال میں سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتیں ہی کیوں سڑکوں پر لانگ مارچز اور دھرنوں کی سیاست پر مجبور ہو جاتی ہیں؟

اس سلسلے میں ماہرین ایک سے زیادہ وجوہات بیان کرتے ہیں، جن میں پارلیمان کے غیر موثر ہونے کے علاوہ، ثقافتی وجوہات، ناپختہ جمہوری اقدار اور سیاسی جماعتوں میں غیر جمہوری روایات کی موجودگی شامل ہیں۔

غیر موثر پارلیمان؟

ماہرین سیاسیات متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں پارلیمان کا غیر موثر ہونا ہی وہ سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ہے جو سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کو آئے دن سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کرتی ہے۔

اقرا یونیورسٹی کے اسلام آباد کیمپس میں سماجی علوم کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلام کے مطابق مضبوط جمہوریتوں کے برعکس پاکستان میں اہم قومی فیصلے پارلیمان سے باہر ہوتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا: ’فیصلے باہر کیے جاتے ہیں، اور پارلیمان کا کام ان پر محض تصدیق كی مہر ثبت کرنا ہوتا ہے۔‘

ان كا مزید كہنا تھا كہ پارلیمان کے اندر مسائل پر بحث مباحثے کا کلچر نہ ہونے كے باعث عوام کا یہ نمائندہ ادارہ اپنے فیصلے خود کرنے اور ان پر زور دینے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے۔

عالمی بینک کے سابق مشیر عابد حسن اخبار دا نیوز کے لیے ایک مضمون میں پاکستان کی وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی کارکردگی کو خراب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ قانون سازی، حکومتی اخراجات اور ٹیکسوں کی منظوری، حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنے اور اہم مسائل پر بحث کرنے جیسے اپنے فرائض پورے کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔

وہ لکھتے ہیں: ’ہماری اسمبلیوں نے کبھی حکومت کے ایک برابر کے ادارے کے طور پر خود کو نہیں منوایا۔ اسمبلیوں میں بحث چھوٹے بچوں كے اجتماع جیسی رہ گئی ہے جہاں شور و غوغا تو بہت ہوتا ہے لیكن كام بالکل بھی نہیں۔ قانون سازوں کی اپنی ذمہ داریوں میں عدم دلچسپی نے اسمبلیوں کو شہریوں کے تحفظات کی نمائندگی کرنے میں غیر موثر اور بے معنی بنا دیا ہے۔‘

عابد حسن مزید لكھتے ہیں كہ پاکستان کے 22 كروڑ عوام کو ایک روشن مستقبل دینے کے لیے قومی اور صوبائی قانون سازوں کو ٹی وی ٹاک شوز میں کم وقت اور سنجیدگی سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں زیادہ وقت صرف کرنا چاہیے، خصوصاً ٹیکس اور حكومتی اخراجات کی منظوریوں اور حکومتوں کو ان كے نتائج کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے۔

پولیٹکل سائنس کے استاد ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ پاکستانی پارلیمان میں فیصلے محض چار سیاسی جماعتوں کے سربراہان کرتے ہیں، جبکہ دوسرے اراکین ان پر عمل درآمد کے پابند ہوتے ہیں۔

دوسری جانب پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلام نے پارلیمان کی کمزوری کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں کوئی ادارہ اپنی طاقت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتا، اور پاکستان میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔

ان کے خیال میں ریاستی اداروں میں یہ رجحان اس لیے پنپ پایا کہ سیاسی رہنما کبھی عدلیہ کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی اسٹیبلیشمنٹ کی طرف۔

ان كے خیال میں كمزور اور غیر موثر پارلیمان اور ملک میں سیاسی عدم استحكام کے لیے صرف اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، بلكہ سیاسی جماعتیں اور پورا معاشرہ بھی اس کے لیے برابر کے ذمہ دار ہیں۔

پارلیمان کو موثر کیسے بنایا جائے؟

دنیا كے مختلف ممالک كی پارلیمانوں كی بین الاقوامی تنظیم انٹر پارلیمینٹری یونین کے مطابق دور حاضر کی جدید جمہوری پارلیمان میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا ہونا لازمی ہے۔

نمائندہ حیثیت: کسی بھی پارلیمنٹ کا عوام کے سماجی اور سیاسی طور پر مختلف گروہوں کا نمائندہ ہونا ضروری ہے، اور یہ ایوان اپنے تمام اراکین کے لیے یکساں مواقع اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

شفافیت: یعنی پارلیمان مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے قوم کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہو، اور اس کے معاملات اور طرز عمل بھی شفاف ہو۔

قابل رسائی ہونا: یعنی عام شہری کی پارلیمان تک رسائی یا پہنچ ہو، اور اس مقصد کے لیے پارلیمان بذریعہ معاشرے میں موجود مختلف تنظیموں اور سول سوسائٹی کی تحریکوں کے اپنے کام میں عوام کو شامل کرے۔

جوابدہ ہونا: پارلیمان کے جوابدہ ہونے سے مراد ہے کہ اس کے اراکین اپنے کام اور طرز عمل سے متعلق اپنے ووٹرز کو جوابدہ ہوں۔

موثر ہونا: کوئی پارلیمان موثر ہو سکتی ہے ’جب وہ آنے والی نسلوں کی ضروریات کے فہم کو ذہن میں رکھتے ہوئے قانون سازی اور نگرانی کے کاموں کو لوگوں کی ضروریات اور امنگوں کے مطابق انجام دے‘۔

صحافی اور انسانی حقوق کے عملبردار مرحوم آئی اے رحمن نے گذشتہ سال ایک مضمون میں لکھا تھا کہ پارلیمان کو مضبوط اور متکبر ایگزیکٹیو میں اسے ربڑ سٹیمپ کے طور پر استعمال کرنے کے رجحان پر قابو پانے کے لیے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا۔

انگریزی اخبار ڈان میں چھپنے والے اس مضمون میں انہوں نے لکھا کہ عوام کا اعتماد صرف مشاورت اور رضامندی سے حکمرانی کی مضبوط روایت قائم کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلام کا کہنا تھا کہ پارلیمان کو مضبوط اور موثر بنانے کے لیے ریاستی اداروں اور سیاسی رہنماوں کو بیٹھنا ہو گا تاکہ رولز آف دا گیم طے کیے جا سکیں۔

’جب تک ایک وسیع اتفاق رائے قائم نہیں ہوتا یہ سرکس یوں ہی جاری رہے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جمہوری معاشروں میں فاتح تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اور ہمارے سیاسی رہنماوں کو اس حقیقات کا ادراک کرنا ہو گا۔

ان کہا کہنا تھا: ’آج کا فاتح ہو سکتا ہے کل کو فاتح نہ رہے، اور یہی جمہوریت ہے۔‘

پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے خیال میں پاکستان کے سیاسی مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے اگر ملک کی سیاسی ثقافت میں کوئی انقلاب آ جائے اور فیصلہ ساز سوچیں کہ کس طرح ملک کو صحیح راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔

ثقافتی وجوہات

برصغیر، جو عمومی طور پر باہر سے آنے والے فاتحین کے تسلط میں رہا، کئی ثقافتوں کا مجموعہ ہے، اور مختلف ثقافتوں کے اس ملغوبے کا رنگ انڈین سبکانٹیننٹ کی کوکھ سے جنم لینے والے پاکستان میں بھی نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر محمد اسلام کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں مسائل کو بیٹھ کر گفت و شنید سے حل کرنے کا رجحان بہت کم ہے، جس کے باعث جمہوریت کو یہاں جڑیں مضبوط کرنے میں مسائل کا سامنا رہا۔

اس سلسلے میں انہوں نے پنچایت یا جرگے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس تاریخی عدالتی نظام میں لوگ اکٹھے بیٹھتے اور مشاورت تو کرتے ہیں، لیکن اس میں انسانی حقوق کی پامالی کی شکایات زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے سیاسی رہنماوں نے جمہوریت کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت بالکل محسوس نہیں کی اور یہ ہماری ثقافت کے خاصوں میں سے ایک ہے۔ ’ہم چاہتے ہیں قانون، اصول اور پابندیاں صرف دوسروں پر لاگو ہوں اور ہم اس سے ہمیشہ آزاد رہیں۔‘

ماہرین کے خیال میں پاکستان جمہوری رویوں میں ایک منفرد ملک ہے، جہاں جو پارٹیاں اشرافیہ کے قبضے میں ہیں اور پارلیمان میں موجود ہیں وہ ہی مارچ اور احتجاج كا راستہ اختیار كر رہی ہیں، جسے آئین كے مطابق قرار دیتے ہوئے ظاہری طور پر عوامی رنگ دیا جاتا ہے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار عرفان احمد بیگ کا کہنا تھا کہ مغرب اور مشرق میں ثقافت اور تہذیب كا فرق بہت واضح ہے جو سیاسی منظر نامے كو بھی متاثر كرتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے كہا کہ جن معاشروں میں شعور کی کمی ہو وہاں معاشرے کی بجائے افراد فائدے اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’گذ شتہ کئی دہائیوں میں ہمارے ہاں خواندگی میں تو اضافہ ہوا لیکن شعور میں کمی واقع ہوئی ہے، جس کے باعث اب تجزیہ کار بھی چھوٹے چھوٹے دائروں میں گھوم رہے ہیں۔‘

موجودہ صورت حال كا حل تجویز كرتے ہوئے عرفان احمد بیگ کا کہنا تھا کہ بچوں کو چھوٹی جماعتوں سے غور اور تجزیہ کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی، اور ایسا ہونے کی صورت میں لوگ آنکھیں بند کر کے کسی مارچ یا دھرنے میں نہیں جائیں گے۔

ان کے بقول: ’باشعور لوگ سوچیں گے کہ کسی احتجاج کی وجوہات اور فوائد کیا ہیں، اور یہ مسائل ان کے نمائندے پارلیمان میں کیوں حل نہیں کرتے؟‘

غیر جمہوری روایات

ماہرین کے خیال میں پاکستان میں جمہوری اقدار مضبوط نہیں ہو پارہی ہیں، جبکہ سیاسی جماعتیں بھی اپنے اندر جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق لاگو کرنے سے گریزاں نظر آتی ہیں۔

عرفان احمد بیگ كا كہنا تھا كہ مغربی جمہوریتوں میں آئین كی تمام شقوں پر پوری طرح عمل ہوتا ہے، اور اس سلسلے میں معاشروں میں دو رائے نہیں پائی جاتی۔ ’ہمارے معاشرے میں صورت حال بالکل الٹ ہے، یہاں دوغلہ پن ہے، ہر کوئی قانون کی تشریح اپنے مفاد اور فائدے کے مطابق کر رہا ہے۔‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلام کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رولز آف دا گیم آئینی طور پر بالکل واضح ہیں لیکن عملاً ان کی وضاحت میں ابہامات موجود ہیں۔

انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اداروں کے کیا دائرہ اختیارات ہیں، انتخابات کیسے ہوں گے، حکومت میں کیسے آنا ہے، لیکن جب ان چیزوں پر عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو ایسا دستور و قانون کے مطابق ہو نہیں پاتا۔‘

كیا دھرنے، مارچ اور احتجاج نہیں ہونا چاہییں؟

سوال اٹھتا ہے كہ اگر بڑی سیاسی جماعتیں پارلیمان میں نمائندگی رکھنے کے باعث سڑکوں پر احتجاج نہیں کرتیں تو کیا پاکستان یا کسی بھی دوسرے معاشرے میں دھرنے اور مارچ نہیں ہوں گے؟

پاکستان ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کے سربراہ عبدالقیوم خان کنڈی کا ماننا ہے کہ پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کا سڑک پر احتجاج کرنا جمہوری روایات کے خلاف ہے۔

وہ ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’جو پارٹیاں پارلیمان میں ہیں اور صوبائی حکومتیں بھی چلا رہی ہیں انہیں سڑکوں پر احتجاج کا کوئی حق نہیں، انہیں پارلیمان میں اپنی آواز اٹھانی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر احتجاج کا جمہوری حق صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کی آواز پارلیمان میں موجود نہ ہو یا جن کے حقوق ریاست نے سلب کیے ہوں۔

اس سلسلے میں انہوں نے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لانگ مارچ اور احتجاج قانون اور جمہوری اقدار کے عین مطابق ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف کینٹ کے پروفیسر رچرڈ نارمن گلوبل پالیسی جرنل میں ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ جمہوری معاشروں میں احتجاج کے چھ فوائد ہو سکتے ہیں۔

1۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک بیانیہ ایجاد کرتی ہے، جس سے اختلاف کی اجازت نہیں ہوتی، اور اختلاف کرنے والے اپنے آپ کو الگ تھلگ، پسماندہ اور بے اختیار محسوس کر سکتے ہیں۔ عوامی مظاہرے اور مارچ لوگوں کو بااختیار بنا سکتے ہیں ان کو یہ احساس دلا کر کہ ہزاروں افراد ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔

2۔ برسر اقتدار حلقے لوگوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، تاہم کافی مظاہرین کا احتجاج یا مارچ حکمرانوں کو اتنی بڑی تعداد کے غلط ہونے کی وجوہات سامنے لانے کے لیے سوچنے پر مجبور کرے گا، اور اس سے بات چیت شروع ہوتی ہے، اور بحث ممکن ہو پاتی ہے۔

3۔ نمائندہ طرز حکومت پر یقین رکھنے والے دانشور بھی مانتے ہیں کہ ووٹ کا استعمال بعض اوقات اکثریت کے ظالمانہ اقتدار اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے میں احتجاج اور لانگ مارچ اکثریت کے اقتدار کے خلاف ایک اصلاحی عمل ثابت ہو سکتا ہے۔

4۔ احتجاج یا مارچ میں لوگوں کی بڑی تعداد ہونے کی صورت میں برسر اقتدار طبقہ مطالبات مانتے ہوئے اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور بھی ہو سکتا ہے۔

5۔ بعض اوقات احتجاج یا مارچ کے نتیجے میں ہمیں ایسی کامیابی بھی حاصل ہو سکتی ہے جس کی ہم نے نہ تو خواہش کی ہوتی ہے اور نہ اس کے لیے منصوبہ بندی۔

6۔ ضروری نہیں کہ احتجاج کرنے والوں کو اسی زمانے میں کامیابی حاصل ہو جائے، بعض اوقات کسی احتجاج کا پھل آئندہ نسل کو بھی مل سکتا ہے۔

عبدالقیوم کنڈی سیاسی جموعتوں کے احتجاج کے پرامن ہونے کے دعووں کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب یہ پارٹیاں سیاسی عدم استحکام پیدا کرتی ہیں تو اس سے جو معاشی نقصان ہوتا ہے اس کا سب سے زیادہ نقصان غریب اور تنخواہ دار طبقات کو ہوتا ہے جس سے ان میں بیروزگاری اور بیچینی بڑھتی ہے۔

مندرجہ بالا بحث سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں پارلیمان کو موثر بنانے کے علاوہ معاشرے میں عمومی جمہوری اقدار اور سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا فروغ اہم اقدامات ہیں، جن سے سڑکوں پر احتجاج کی سیاست کی حوصلہ شکنی ممکن ہو سکتی ہے۔

بشکریہ انڈیپنڈنٹ اردو

ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …