جمعہ , 19 اپریل 2024

فرزند رسول امام صادق علیہ السلام کی سوانح حیات

25 شوال سن 148 ھ ق امام جعفر صادق علیہ السلام کا یوم شہادت ہے۔

ابوعبداللہ ، جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام معروف بہ صادق آل محمد فرزند رسول اور شیعوں کے چھٹے امام ہیں ۔ جو کہ اپنے والد امام محمد باقرعلیہ السلام کی شہادت کے بعد 7 ذی الحجہ سن 114 ھ ق کو آنحضرت کی وصیت کے مطابق امامت کے منصب پرفائز ہوۓ ۔

امام جعفرصادق (ع) بروز جمعہ طلوع فجر کے وقت اور دوسرے قول کے مطابق بروز منگل 17 ربیع الاول سن 80 ھ ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔ روایات کے مطابق فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد اکتیس سال کی عمر میں ایک سو چودہ ہجری قمری کو عوام کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ سنبھالا اور منصب امامت پر فائز ہوئے۔ آپ کا دور امامت چونتیس برسوں پر محیط ہے ۔

سن ایک سو چودہ سے ایک سوبتیس ہجری قمری تک اموی دور حکومت تھا جبکہ ایک سو بتیس سے لے کر ایک سو اڑتالیس ہجری قمری یعنی آپ کی شہادت تک عباسی حکمراں برسر اقتدار تھے ۔ جب آپ منصب امامت پر فائز ہوئے تو بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی جس کی بنا پر اموی حکمرانوں کی توجہ خاندان رسالت سے کسی حد تک ہٹ گئی اور خاندان رسالت کے افراد نے امویوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہ کر کسی حد تک سکون کی سانس لی۔

اسی دوران امام جعفرصادق علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے بے پناہ کوششیں کی اور مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو ایک یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا۔ آپؑ نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اور ایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی۔ اس تحریک کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع ملے۔

یہ بھی دیکھیئے: امام جعفر صادق علیہ السلام کا مقصد حکومت نبوی کا قیام تھا

امام جعفرصادق علیہ السلام کا ‌زمانہ علوم و فنون کی توسیع اور دوسری اقوام کےعقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ اسلامی افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے تقابل اور علمی بحث و مناظرے کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اسی زمانے میں ترجمے کے فن کو بڑی تیزی سے ترقی حاصل ہوئی اورعقائد و فلسفے دوسری ‌زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کو تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جا سکتا ہے۔ اس زمانے میں ایک طرف تو بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری طرف علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں ۔

آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں، غلط حرکتوں اور غیر اخلاقی و اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کر کے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کیا اور اہل بیت علیہم السلام کی فقہ و دانش، اسلامی احکام اور ذاتِ نبوی کے عطا کردہ حقیقی اسلامی اور شیعہ مذہب کی تعلیمات کو اس قدر فروغ دیا کہ مذہب شیعہ نے جعفری مذہب کے نام سے شہرت اختیار کرلی۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے جتنی احادیث راویوں نے نقل کی ہیں اتنی کسی اور امام سے نقل نہیں کیں۔ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے کسب فیض کرنے والے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں ہر مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔

آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم، مفضل بن عمر اور جابر بن حیان کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام کمایا۔ مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابر بن حیان نے دو سو ‌سے زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔ جابربن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔

اہل سنت کے چاروں فقہی مکاتب فکر کے امام، بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خاص طور پر امام ابو حنیفہ نے تقریبا "دوسال تک براہ راست آپؑ سے کسب فیض کیا۔ آپؑ کی علمی منزلت و عظمت اور اپنی شخصیت میں فرزند رسول کی تاثیر کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ کہتے ہیں: "میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔” یا "لولا السنتان، لھلک نعمان”؛ یعنی اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت طیبہ اور اخلاقی کمالات کے بارے میں مورخین نے بہت کچھ لکھا ہے ۔آپ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور حاجت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا کرتے تھے اور لوگوں کو بھی ان باتوں کی نصیحت فرماتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں: اپنے رشتے داروں اور اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ نیکی اور احسان کرو چاہے وہ سلام کرنے یا خندہ پیشانی کے ساتھ جوابِ سلام دینے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ‌زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

پہلا دور وہ ہے جو آپ نے اپنے جد بزرگوار امام زین العابدین علیہ السلام اور والد ماجد امام محمد باقرعلیہ السلام کے زیرسایہ گزارا۔ یہ دور سن تراسی ہجری سے لے کر ایک سو چودہ ہجری قمری تک جاری رہا۔ دوسرا دور ایک سو چودہ ہجری سے ایک سو چالیس ہجری قمری کے درمیانی عرصے پر محیط ہے اس دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو اسلامی علوم و معارف کو عام کرنے کا بھرپور موقع ملا جس سے آپ نے پورا فا‏ئدہ اٹھایا۔ اس دور میں آپ نے چار ہزار سے زائد شاگردوں کی تربیت کی اور مکتب شیعہ کو عروج پر پہنچایا۔ تیسرا دور امام کی آخری آٹھ سال کی زندگی پر مشتمل ہے۔

اس دورمیں آپ پرعباسی خلیفہ منصور دوانیقی کی حکومت کا سخت دباؤ تھا اور آپ کی ہر قسم کی نقل و حرکت پر مستقل نظر رکھی جاتی تھی۔ بنی عباس نے چونکہ خاندان پیغمبر (ص) کی حمایت و طرفداری کے نعرے کی آڑ میں اقتدار حاصل کیا تھا تو شروع شروع میں عباسیوں نے امام پر دباؤ نہیں ڈالا اور انہیں ایذائیں نہیں پہونچائیں۔ لیکن آہستہ آہستہ عباسیوں نے اپنے قدم جمانے اور اقتدار مضبوط کرنے کے بعد بنی امیہ کا طریقہ کار اپنا لیا اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے چاہنے والوں کو تنگ کرنے اور ان پر ظلم و ستم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور اس میں وہ بنی امیہ سے بھی آگے نکل گئے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ منصور دوانیقی ملعون نے آپ کو ۲۵ شوال سنہ ۱۴۸ ہجری کو زہر کے ذریعہ شہید کر دیا

یہ بھی دیکھیں

ترک صدر اردوغان نے نیتن یاہو کو غزہ کا قصائی قرار دیدیا

انقرہ:ترک صدر رجب طیب اردوغان نے نیتن یاہو کو غزہ کا قصائی قرار دیا ہے۔ترکی …