جمعرات , 25 اپریل 2024

پٹی بافی 80 کی دہائی تک بلتستان کی اہم ترین صنعت تھی

پٹی بافی 80 کی دہائی تک بلتستان کی اہم ترین صنعت تھی، جہاں بلتستان بھر میں اون کی لوئیاں اور پٹو تیار ہوتے تھے۔

بکری اور یاک کے بالوں سے خاص قسم کا بچھونا ’چھرہ‘ تیار ہوتا تھا، جو ہر گھر کی لازمی ضرورت تھی۔

پٹی بافی کے ذریعے بھیڑ کے اون سے موٹا اور گرم کپڑا تیار ہوتا تھا۔ اسی صعنت سے مختلف قسم کی چادریں بھی تیار ہوتی تھی جن پر مختلف قسم کی کشیدہ کاری بھی کی جاتی تھی۔

80 کی دہائی کے بعد جب شاہراہ قراقرم کے ذریعے بلتستان کا زمینی رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے قائم ہوا تو جدید مشینری کی مصنوعات آنے لگیں اور پٹی بافی کی صنعت دم توڑ گئی۔

اب یہ صنعت بلتستان میں صرف چند علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

بلتستان کے ضلع گانچھے کے علاقے براہ سے تعلق رکھنے والے سجاد حسین نے پٹی بافی کی قدیم ترین روایت کو نہ صرف زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ انہوں نے اسے باقاعدہ صنعت کی شکل دے دی ہے۔

پٹی بافی کی صنعت کے ذریعے سجاد حسین نہ صرف اپنی روزی کماتے ہیں بلکہ اپنے گاؤں کی 30 سے 40 خواتین کو بھی روزگار کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سجاد حسین نے کہا: ’میں نے اپنے علاقے کی ثقافت اور قدیم روایت کو زندہ رکھنے کے لیے اس شعبے کو اختیار کیا، اس سے پہلے میرے آباواجداد بھی اس شعبے سے منسلک تھے۔‘

سجاد حسین کا کہنا تھا کہ یہ روایت دم توڑنے کے بعد لوگ اون کو ضائع کردیتے تھے اور نالوں اور گلی محلوں میں پھینک دیتے تھے جس سے ماحولیاتی آلودگی بھی پیدا ہوتی تھی۔

سجاد حسین کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اس کام کا آغاز کیا تو شروع میں ان کے پاس دو تین خواتین ہی آتی تھیں جو اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اجرت پر کام کرتی تھیں۔

مگر اب 50 کے قریب خواتین گھروں میں ہی کام کرتی ہیں جبکہ 10 سے 12 خواتین روزانہ یہاں کام کرتی ہیں۔

سجاد حسین کا کہنا ہے کہ انہیں مختلف جگہوں سے آرڈر آتے ہے، اور کبھی کبھی تو وہ آرڈر پورے بھی نہیں کر سکتے۔

ان کے بقول: ’سیزن میں جب سیاح بلتستان آتے ہیں تو وہ لوگ بھی روایتی شال اور دیگر چیزوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلتستان میں جب کوئی وی آئی پی آتے ہیں تو ان کو پیش کرنے کے لیے روایتی شال اور ٹوپی ہم سے ہی بنوائے جاتی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن محنت کریں تو کوئی مشکل نہیں۔

سجاد حسین کے ہاں کام کرنے والی ایک خاتون شیریں بانو نے بتایا کہ وہ یہاں کام کر کے ماہانہ 30 سے 40 ہزار روپے کما لیتی ہیں جس سے وہ اپنی گھریلو ضروریات اور بچوں کی فیسیں پوری کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں تین چار سالوں سے کام کر رہی ہے، انہیں اس کام کا بہت شوق تھا، اب بہت کچھ سیکھ بھی لیا ہے۔

کپڑا کیسے بنتا ہے؟

پٹی بافی کی مشینری یا کارخانہ جو مکمل طور پر لکڑی کا بنایا جاتا ہے کو مقامی زبان میں ’تھاقشا‘ کہتے ہیں۔

تھاقشا بنانے کا عمل انتہائی پچیدہ ہے جو بلتستان کے چند ہنرمند ہی بنا سکتے ہیں۔

اس صعنت میں بھیڑ کا اون، بکری اور یاک کے بالوں کا استعمال ہوتا ہے۔

بھیڑوں سے اون اتارنے کے بعد اسے صاف کیا جاتا ہے۔ اون میں مٹی ملا کر ایک نرم چھڑی سے مارا جاتا ہے جس سے اون صاف ہونے کے ساتھ ساتھ سیدھی ہوتی جاتی ہے۔

اس کے بعد خواتین اس اون سے دھاگا بنانے کا عمل شروع کرتی ہیں۔ اس دھاگے سے تھاقشے میں کپڑے اور چادریں بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

رحیم یار خان : دو قبیلوں میں تصادم کے دوران آٹھ افراد جاں بحق

رحیم یار خان:رحیم یار خان کے نزدیک کچھ ماچھک میں دو قبیلوں میں تصادم کے …