ہفتہ , 20 اپریل 2024

طالبان فورسز کو تربیت کیلئے بھارت بھیجنے کو تیار ہیں، وزیر دفاع ملا یعقوب

طالبان کے وزیر دفاع ملا یعقوب نے کہا کہ انھیں انڈیا کے ساتھ دفاعی تعلقات بحال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پہلے دونوں حکومتوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونے چاہییں۔

انھوں نے انڈین ٹی وی سی این این نیوز-18 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر دونوں حکومتوں کے درمیان تعلقات معمول پر آتے ہیں تو طالبان افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت کے لیے انڈیا بھیجنے کے لیے تیار ہے۔‘

ملا یعقوب نے حکومت ہند سے کابل میں اپنا بند سفارت خانہ دوبارہ کھولنے اور طالبان سفیر کو نئی دہلی میں افغان سفارت خانہ سنبھالنے کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کیا۔

وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر انڈیا اپنے سفارتی عملے کو افغانستان واپس بھیجتا ہے تو طالبان کسی بھی قسم کی حفاظتی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے قبل یہ بات دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی کہی تھی۔

ملا یعقوب نے سی این این نیوز 18 کے ساتھ انٹرویو کے دوران اس بات کا اعادہ کیا کہ طالبان حکومت ہند سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے۔

ہم نے طالبان کے بانی و قائد ملا عمر کے بیٹے اور طالبان کے وزیر دفاع ملا یعقوب کے اس بیان کے بارے میں بی بی سی مانیٹرنگ کے افغان امور کے ماہر طارق عطا سے بات کی جن کا کہنا ہے کہ طالبان اور افغانستان میں مایوسی کا عالم ہے اور معاشی سرگرمیاں تقریباً ٹھپ پڑی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ایسے میں طالبان کی شدید خواہش ہے کہ دنیا انھیں تسلیم کرے کیونکہ ابھی تک کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر قبول نہیں کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اسے تسلیم نہیں کیا گیا چنانچہ وہ پاکستان سمیت دنیا کے تمام مسلم ممالک سے خصوصی طور پر اپیل کر رہے ہیں۔ انھوں نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سے بھی یہ اپیل کی ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے تاکہ افغانستان میں معاشی سرگرمی شروع ہو سکے، آخر کوئی ملک انسانی بنیاد پر دی جانے امداد پر کتنے دن گزر کر سکتا ہے۔

طارق عطا نے کہا کہ ’جہاں تک سکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کی بات کہی گئی ہے تو یہ بڑی بات ہوگی کیونکہ پاکستان کو یہ بالکل قابل قبول نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکنیکل قسم کی تربیت تو طالبان سے قبل بھی دی جاتی رہی ہے لیکن باضابطہ سکیورٹی فورسز کی تربیت کچھ زیادہ ہے۔‘

طارق عطا نے کہا کہ افغانستان میں انڈیا اور پاکستان کے متعلق عوام میں دو واضح دھڑے ہیں۔ ایک پاکستان کا حامی ہے تو دوسرا انڈیا کو پسند کرتا ہے۔

انڈیا کی جانب سے پہلی بار باضابطہ طور پر طالبان کے افغانستان میں وفد گیا ہے جو کہ بظاہر انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد کا جائزہ لینے کے لیے ہے لیکن اس کے علاوہ بھی انڈیا کی افغانستان میں دلچسپی رہی ہے۔

اس سے قبل اس نے دوحہ میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات تھی اور گذشتہ دنوں انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ انڈیا کا افغانستان کے ساتھ خصوصی رشتہ ہے اور وہ برقرار رہے گا۔

دوشنبے میں علاقائی سکیورٹی کے متعلق اجلاس ہوا جس میں انڈیا کے علاوہ چین، ایران، قزاقستان، کرغیزستان، روس، ازبکستان اور تاجکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ریاستی سکیورٹی کونسل کے سربراہوں نے شرکت کی تھی۔

ہندوستان ٹائمز میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ڈوول نے کہا کہ ’افغانستان کے لوگوں کے ساتھ صدیوں پر محیط خصوصی تعلقات انڈیا کے نقطہ نظر کی رہنمائی کریں گے۔ اسے کچھ نہیں بدل سکتا۔‘

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے طارق عطا نے کہا کہ تاریخی طور پر انڈیا کے افغانستان سے اچھے اور قریبی تعلقات رہے ہیں اور طالبان کے پہلے دور کے بعد انڈیا نے وہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ انڈیا نے بہت سے تعمیری پروجیکٹ مکمل بھی کیے ہیں تاہم بہت سے ابھی ادھورے ہیں۔ اگر انڈیا اپنے منصوبے کو دوبارہ شروع کرتا ہے تو بہت سے افغانوں کو اس سے معاشی سہارا ملے گا۔

سی این این نیوز 18 کے ساتھ انٹرویو میں ملا یعقوب نے گذشتہ چند مہینوں کے دوران افغانستان کے لیے انسانی امداد فراہم کرنے پر انڈیا کا شکریہ ادا کیا ہے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ کی پریس ریلیز کے مطابق جوائنٹ سیکریٹری جے پی سنگھ کی قیادت میں ایک وفد کابل پہنچا ہے جو کہ امدادی اشیا کی تقسیم میں مشغول بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات کرے گا۔

دو جون کے پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا ابھی تک 20 ہزار میٹرک ٹن گندم، 13 ٹن ادویات، کووڈ ویکسین کی پانچ لاکھ خوراکیں اور جاڑے کے کپڑے بھیج چکا ہے۔ یہ چیزی کابل میں اندراگاندھی چلڈرن ہسپتال اور ڈبلیو ایچ او اور ڈبلیو ایف پی کو سونپی گئی ہیں۔

بی بی سی مانیٹرنگ نے ہندوستان ٹائمز کے حوالے سے خبر دی ہے کہ انڈیا نے اپنے سنہ 23-2022 کے بجٹ میں افغانستان کے لیے 200 کروڑ روپے یا ڈھائی کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ کی رقم مختص کی ہے۔

جبکہ سنہ 2002 سے 2005 کے دوران کابل میں کام کرنے والے سابق انڈین سفیر وویک کاٹجو نے انڈیا کے اس دورے کو ’ہوشمندانہ قدم‘ بتاتے ہوئے کہا: ’مجھے امید ہے کہ اس سے مناسب سطح پر کابل میں انڈیا کی مستقل موجودگی کا راستہ ہموار ہو گا۔‘

قابل ذکر ہے کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد دنیا کے کئی ممالک کی طرح انڈیا نے بھی کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا اور طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں رکھے تھے۔

’ہم انڈیا اور پاکستان کے مقابلے کے بیچ نہیں آتے‘

انڈین ٹی وی کو دیے گئے اس انٹرویو میں ملا یعقوب نے افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے سہ فریقی تعلقات اور خطے میں سکیورٹی کے متعلق بھی مختصر بات کی۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان یا انڈیا کو افغانستان کی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک اپنے اختلافات مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔

طالبان کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور افغانستان میں نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو کچل دیا گیا ہے۔

انھوں نے پاکستان اور ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اگر وقتاً فوقتاً ڈیورنڈ لائن پر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔

ملا یعقوب نے امریکہ سے بھی افغانستان میں طالبان حکومت کے لیے مسائل پیدا نہ کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔

تاہم انڈیا کو طالبان کی صفوں میں پاکستانی انٹیلی جنس اور انتہا پسند گروپوں کے اثر و رسوخ پر تشویش ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ افغان سرزمین کا استعمال انڈیا کے خلاف ہو۔

لیکن طالبان کا زور دے کر کہنا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک یا گروہ کو افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

طالبان کے وزیر دفاع نے یہ تبصرہ ایک ایسے وقت میں کیا جب انڈیا کے اعلیٰ خارجہ سکریٹری جی پی سنگھ ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کے لیے میں کابل پہنچے ہیں۔

طالبان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ انڈین حکام نے انھیں بتایا ہے کہ ’وہ افغانستان کے ساتھ پہلے کی طرح اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور اپنی امداد جاری رکھیں گے۔‘

وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ انڈیا کو ’افغانستان میں اپنے رکے ہوئے منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنا چاہیے، اپنی سفارتی موجودگی کو بحال کرنا چاہیے اور افغانوں کو، خاص طور پر افغان طلبا اور مریضوں کے لیے قونصلر خدمات فراہم کرنی چاہیے۔‘

بی بی سی مانیٹرنگ نے خبر دی ہے کہ انڈیا کے اخبار دکن ہیرالڈ نے لکھا ہے کہ انڈیا نے آخر کار افغانستان میں ملیشیا حکومت سے براہ راست ملنے کے متعلق اپنے ہچکچاہٹ کو ختم کر دیا ہے۔

جبکہ ملیالم زبان کے ایک معروف اخبار کیرالہ کومودی نے لکھا ہے کہ ’طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسی افغانستان میں انڈیا کی مداخلت کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ بہر حال انڈین ٹیم کے افغانستان دورے سے اس کے منصوبے کو گہرا دھچکہ پہنچا ہے۔‘

انڈیا میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا ہے کہ میڈیا کو اس دورے کے متعلق زیادہ بین السطور پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

واضح رہے کہ اسے سے قبل دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے دی پرنٹ نیوز سائٹ کے ساتھ انٹرویو کے دوران انڈیا پر زور دے کر کہا تھا کہ وہ قومی اور باہمی مفادات کے تحت کابل میں موجود طالبان حکومت سے رشتہ قائم کرے اور اشرف غنی کی سابق حکومت سے سارے تعلقات توڑ لے۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …