ہفتہ , 20 اپریل 2024

افغان طالبان کی سمت غلط ہے،معاشی تعاون حقوق کی فراہمی سےمشروط ہوگا، جرمن وزیرخارجہ

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اپنے پہلے دورۂ پاکستان کے موقع پر عالمی برادری سے افغان طالبان کو واضح اور دوٹوک طریقے سے یہ پیغام دینے کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ غلط جانب بڑھ رہے ہیں۔

اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں جرمن وزیر خارجہ نے طالبان کے زیر انتظام افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران سے خبردار کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم سرحد کے اس پار دیکھتے ہیں تو صورت حال سنگین نظر آتی ہے، طالبان ملک کو تنزلی کی طرف لے جارہے ہیں۔

انہوں نے افغان عوام کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’والدین نہیں جانتے کہ اپنے بچوں کو کھانا کیسے کھلائیں، لڑکیاں تعلیم کے حقوق سے محروم ہیں، خواتین کو معاشرے کے تمام پہلوؤں سے دور کر دیا گیا ہے، اختلافی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے اور معیشت تباہ ہو رہی ہے‘۔

اس موقع پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان اور جرمنی خطے میں امن اور استحکام کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم جرمنی کی وزیر خارجہ کو پاکستان کے پہلے دورے پر خوش آمدید کہتے ہیں، پاکستان اور جرمنی کا دیرینہ تعلق باہمی تعاون پر مشتمل ہے، حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ روابط رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان، جرمنی کے درمیان قرض ادائیگی میں معطلی کے معاہدے پر دستخط

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک خطے میں امن اور استحکام کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں، جرمنی پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار ہے اور پاکستان کی برآمدات وصول کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے، گزشتہ برس پاکستان نے جرمنی کو 2 ارب 50 کروڑ ڈالرز کی برآمدات بھیجیں جبکہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالرز کی درآمدات موصول کیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال جرمنی کے ساتھ پاکستان کے تعلق کو 70 سال مکمل ہوگئے، جرمن وزیر خارجہ سے ملاقات میں ہم نے تجارت اور سرمایہ کاری، موسمیاتی تبدیلی، دفاع اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان باہمی روابط سمیت مختلف امور پر بات چیت کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم جرمنی میں موجود سیکڑوں پاکستانیوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے جلد میونخ میں قونصلیٹ جنرل آف پاکستان کے افتتاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مستحکم افغانستان پوری دنیا کے مفاد میں ہے، بلاول بھٹو
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے افغانستان اور ان کے عوام کو درپیش انسانی بحران سے متعلق بھی تفصیلی بات چیت کی، پاکستان کی پالسیی اس حوالے سے واضح ہے، ہم ایک پرامن اور خوشحال افغانستان کے حامی ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوتی رہی، پاکستان افغان مہاجرین کو برسوں سے پناہ دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کے بعد افغان عوام کوچیلنجز کا سامنا ہے،امید ہے کہ افغان عوام کومشکل حالات میں نہیں بُھولا جائے گا اوراُن کی امداد کی جائے گی۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو کئی دہائیوں تک دہشت گردی اور انتہاپسندی کا سامنا رہا ہے، اس لیے ایک مستحکم افغانستان پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ افغان حکام کی جانب سے بھی خواتین کے حقوق اور دہشت گردی کے مسائل سے متعلق عالمی برادری کی امیدوں کی پاسداری کی جائے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے اثاثے بحال کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایف اے ٹی ایف اور جی ایس پی پلس کے معاملے پر مثبت پیش رفت چاہتےہیں، پاکستان کئی دہائیوں سے ان معاملات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں ان معاملات میں نہ گھسیٹا جائے۔

‘یوکرین پر پاکستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی’
وزیر خارجہ نے بتایا کہ جرمن وزیر خارجہ سے روس یوکرین تنازع پر بھی بات چیت ہوئی، یوکرین پر پاکستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہم کسی تنازع کا حصہ نہییں بننا چاہتے لیکن ہم یوکرین میں جنگ کا فوری خاتمہ چاہتے ہیں، تمام تنازعات کو بالآخر بات چیت سے ہی حل ہونا ہوتا ہے، ہم روس یوکرین جنگ کے مذاکراتی حل پر زور دیتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ریاستوں کی خودمختای کا پرزور حامی ہے، پاکستان یوکرین کے عوام کی خیر وعافیت سے متعلق فکرمند ہے، یوکرینی عوام کے لیے پاکستان نے 4 امدادی جہاز بھی بھیجے۔

انہوں نے کہا کہ روس یوکرین تنازع شروع ہونے کے ساتھ ہی پاکستان روس اور یوکرین قیادت سمیت یورپی یونین اور عالمی برادری سے مسلسل رابطے میں ہے اور مذاکرات سے پرامن حل پر زور دے رہا ہے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان نے چین اور دنیا کے درمیان سفارتی تعلقات شروع کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، ہم سرد جنگ کا حصہ بننے کی بجائے چین اور امریکا کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے۔

‘جنوبی ایشیا میں مستحکم امن مقبوضہ کشمیر کے تنازع کے حل سے مشروط ہے’
بلاول بھٹو نے کہا کہ جرمن وزیر خارجہ سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا پر بھی بات چیت ہوئی، حال ہی میں بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود مسلمانوں کی دل آزاری کی۔

انہوں نے کہا کہ میں واضح کرتا ہوں کہ جنوبی ایشیا میں مستحکم امن کا براہ راست تعلق اقوام متحدہ کی قرارداد اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مقبوضہ کمشیر کے تنازع کے حل سے مشروط ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ بھارت کے یک طرفہ اقدامات کے باعث دو طرفہ بات چیت کا عمل متاثر ہوا ہے، بھارت اب ایک ’ہندوتوا انڈیا‘ ہے، بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات بات چیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جرمنی کے ساتھ متعدد شعبوں میں باہمی تعلق موجود ہے اور ہم اس دائرے کو مزید وسیع کرنا چاہتے ہیں، میں جرمن وزیر خارجہ آنالنا بربوک کے دورہ پاکستان پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خطے کے امن اور باہمی تعلق کو مزید گہرا کرنے کے لیے اس ساتھ کو مزید آگے بڑھانے کی امید کرتا ہوں۔

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ملاقات ایسے وقت میں ہورہی ہے جب دنیا میں متعدد تنازعات جاری ہیں، افغانستان میں اس وقت سنگین انسانی بحران ہے جس کے اثرات ہمیشہ سرحد پار محسوس کیے جاتے ہیں، تاہم کسی ملک نے پاکستان سے زیادہ اس کے اثرات محسوس نہیں کیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح روس کا یوکرین پر حملہ نہ صرف عالمی امن کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ روس کی یوکرین پر پابندیوں کے سبب یوکرین میں شدید غذائی بحران جنم لے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا کے لیے سب سے بتا چیلنج بن چکا ہے، اس کے اثرات نظر آنا بھی شروع ہو چکے ہیں، دنیا کو بیک وقت ان تمام بحرانوں کا سامنا ہے اس لیے ہم ان سے علیحدہ علیحدہ نہیں نمٹ سکتے، ہم ان سب بحرانوں سے بیک وقت مل کر نمٹنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا، میں آج اسی لیے یہاں موجود ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان کو درپیش مسائل پر تفصیلی بات چیت کی، گذشتہ برسوں میں لاکھوں افغان شہریوں نے بہتر مستقبل کے لیے افغانستان سے ہجرت کی جن کی بڑی تعداد کو پاکستان نے پناہ دی اور تحفظ فراہم کیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ یہ آسان ذمہ داری نہیں تھی جو پاکستان نے عالمی برادری کی جانب سے تنہا ادا کی، اس پر پاکستان داد اور خراج تحسین کا مستحق ہے، اس مقصد کے لیے جرمنی پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔

‘افغان عوام کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے’
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کا افغان حکام کو واضح اور دو ٹوک پیغام ہے کہ آپ غلط جانب بڑھ رہے ہیں، اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو حالات معمول پر آنے کا کوئی راستہ نہیں بچے گا، ہم افغان عوام کے لیے امداد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے، خاص طور پر افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے جنہیں طالبان حکومت میں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ افغان حکومت کو ہم سب کی جانب سے یکساں پیغام موصول ہورہا ہے، ہم دونوں ممالک مل کر افغان عوام کی امداد جاری رکھیں گے کیونکہ ہم انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتے، تاہم اس کے علاوہ تمام معاملات مشروط ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس سب کے ساتھ ساتھ چونکہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان غلط سمت میں بڑھ رہے ہی اس لیے معاشی تعاون افغانستان میں انسانی حقوق کی فراہمی سے مشروط ہوگا۔

‘پاکستان ہمارا سب سے قریبی اور قابل اعتماد ساتھی رہا ہے’
جرمن وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان ہمارا سب سے قریبی اور قابل اعتماد ساتھی رہا ہے، پاکستان کے تعاون سے 40 ہزار افغان شہری تحفظ اور نئی زندگی کی شرووعات کے لیے جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

انہوں نے کہا میں پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں، ہم اس تمام تعاون کے لیے انتہائی شکر گزار ہیں، ان مشکل حالات میں بھی ہم اپنے کامیاب تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینوں نے یہ ثابت کیا کہ دونوں ممالک کے تعاون سے کیا کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، اس تعاون کو ہم دیگر شعبوں میں بھی آگے بڑھا سکتے ہیں۔

‘روس نے یوکرین پر جارحیت سے انتہائی غلط مثال قائم کی’
انہوں نے کہا کہ روس نے یوکرین پر جارحیت سے انتہائی غلط مثال قائم کی ہے، اگر دنیا میں محض طاقتور کا قانون نافذ کیا جائے تو یہ دنیا مزید خطرناک شکل پیش کرے گی، لہذا ہمیں ہر صورت یوکرین کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔

جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ روس اور یوکرین جنگ سے توانائی بحران، خوراک، تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور دیگر چیلنجز نے جنم لیا، روس اور یوکرین جنگ میں انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے، روس کی جانب سے یوکرین میں حملوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، روس کو یوکرین میں بمباری کو روکنا چاہیے۔

جرمن وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کی بات کی جائے تو یہ ایسا ہی ہے کہ ہم سب ایک ہی گھر میں رہ رہے ہیں جس کی چھت جھلس رہی ہے، ہمارے پاس وقت ختم ہوتا جارہا ہے اور اب ہمیں فوری قدم اٹھانا ہوگا، دونوں ممالک کی نئی حکومتوں نے اس مسئلے کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان اور جرمنی نے ’جوائنٹ کلائمیٹ اینڈ انرجی پارٹنر شپ‘ قائم کی تھی، ہم اس اشتراک کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور اس کو اگے مرحلے تک لے جانا چاہتے ہیں۔

انالینا بیئربوک نے کہا کہ ہم نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے مزید مواقعوں پر بھی بات چیت کی۔

جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کرتے ہیں، ہم سیکیورٹی کونسل کا حصہ نہیں ہیں لیکن ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی جانب سے تعمیری حکمت عملی اور باہمی مشاورت سے تعلقات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، گزشتہ سال دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائز کا معاہدہ ایک خوش آئند اقدام تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، کسی ایک ملک کی جانب سے اشتعال دلانے کی کوششوں پر دوسرے ملک کو اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے ردعمل دینے سے پریز کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا میں پاکستان میں اپنے پُرجوش استقبال پر شکرگزار ہوں، یہ بات خوش آئند ہے کہ ہماری آج کی ملاقات نے مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعاون کی بنیاد رکھ دی ہے۔

جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان متعدد بحرانوں کی موجودگی میں ہم صرف اس صورت میں اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں جب ہم خیالات کا تبادلہ کریں، کھل کر بات کریں اور قریبی تعاون کریں، میں پر امید ہوں کہ ہماری آج کی ملاقات نے مستقبل میں ہمارے تعاون کی بنیاد رکھی ہے۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …