لندن سے شائع ہونے والے اخبار کے چیف ایڈیٹر اور معروف عرب صحافی عبدالباری عطوان کے ایک مقالے کا اقتباس اسرائيلی طیاروں نے دمشق ایئرپورٹ پر راکٹ فائر کئے جس کی وجہ سے ايئر پورٹ کے کئ حصوں کو نقصان پہنچا اور اب شاید کئي دنوں تک اس ايئرپورٹ کو استعمال کرنا ممکن نہیں ہوگا یہ در حقیقت ایک طرح سے اشتعال انگیزی ہے اور اسرائيل نے اس طرح کا حملہ کرکے ساری ریڈ لائنیں پار کر دی ہیں۔ قابل غور ہے کہ یہ حملہ اسرائيل کی ان فوجی مشقوں کے فورا بعد کیا گیا جو تقریبا ایک مہینے تک چلا ہے اور جس کے دوران ہر قسم کے ہتھیاروں کا تجربہ کیا گيا ۔ان فوجی مشقوں کا مقصد ، ایران ، شام اور جنوبی لبنان ، بلکہ یمن اور عراق پر حملے کی تیاری قرار دیا گیا تھا ۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اسرائيل نے شام پر تین سو سے زائد فضائي حملے کئے ہيں ۔ حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری سید حسن نصر اللہ نے عالمی یوم قدس کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ شام میں اسرائيل کی ہر جارحیت کا جواب دیا جائے گا تو اب سوال یہ ہے کہ کیا شام کے فوجی ، سیاسی اور سیکوریٹی کے لحاظ سے سب سے اہم مقام یعنی دمشق ایئرپورٹ پر کی جانے والی اسرائیل کی اس جارحیت کا جواب دیا جائے گا ؟
اس کا صحیح جواب تو شامی قیادت کے پاس ہے لیکن یہ تو واضح ہے کہ اگر اسرائيل کی اس جارحیت کا جواب دیا گیا تو علاقائي جنگ شروع ہو سکتی ہے لیکن اگر خاموش رہے اور اسرائيل کی جانب سے اشتعال انگیزی کے اس جال میں پھنسنے سے بچنے کے بارے میں سوچا گيا تو اس سے اس کی گستاخی بڑھے گی اور پھر ہمیں حیرت نہيں ہوگی اگر اسرائيل ، شام کے تمام ايئرپورٹوں ، بجلی گھروں بلکہ ایوان صدارت کو بھی نشانہ بنانے لگے ۔
شام کو جنگ سے ڈر نہيں لگتا وہ تو گیارہ برسوں سے ایسی جنگ میں قدم جمائے کھڑا ہے جس کے پیچھے امریکہ، یورپی یونین اور ان کے عرب کھڑے ہيں اور شام کی حکومت ختم کرنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں ۔ ہمارے خیال میں اسرائيل کی اس جارجیت کا جواب ضرور دیا جائے گا بھلے ہی اس سے جنگ ہی کیوں نہ شروع ہو جائے لیکن اس کے لئے استقامتی محاذ کے تمام دھڑوں سے مشورے کی ضرورت ہوگی جو ایک صبر طلب عمل ہے ۔ ہمارے خیال میں استقامتی محاذ کو اس قسم کے توہین آميز حملے کا فورا جواب دینا چاہیے اور یہ جواب مقبوضہ فلسطین کے اندر دیا جائے مطلب ، ايئرپورٹ کے جواب میں ایئرپورٹ ، بندرگاہ کے مقابلے میں بندرگاہ ، بنیادی ڈھانچے کے مقابلے میں بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا جائے۔
(عبد الباری عطوان ، رای الیوم )