جمعہ , 19 اپریل 2024

توانائی بحران کا فوری حل ایران ہے

تحریر: شبیر احمد شگری

پاکستان اور ایران کی سرحد ہی نہیں ملتی بلکہ دونوں ممالک کے عوام یک جان دو قالب ہیں۔ ایران پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنیوالا اسلامی ملک ہے۔ دونوں ممالک کو ایک طویل سرحدی لکیر نے جغرافیائی حدوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ورنہ دونوں طرف کی عوام کے دل ایک دوسرے کیلئے دھڑکتے ہیں۔ پاکستان اور ایران قدیم ثقافتی، مذہبی، تجارتی اور ادبی مضبوط رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری قومی زبان اردو میں 70 فیصد سے زائد الفاظ فارسی زبان کے ہیں۔ قومی ترانے میں پاک سرزمین کا نظام میں لفظ "کا” ہی صرف اردو زبان کا لفظ ہے جبکہ باقی سارے الفاظ فارسی زبان کے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونیوالی 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں ایران نے پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔ 1965ء کی جنگ کے دوران پاکستانی طیارے انڈین حملوں سے بچنے کیلئے ایران میں رُکتے تھے۔ 1965ء کی پاکستان اور انڈیا جنگ کے دوران ایرانی سرکاری ریڈیو نے یہ اعلان کیا کہ اگر ہندوستان نے پاکستان کیخلاف جارحیت جاری رکھی تو ایران کا ردعمل صرف جذبات کے اظہار تک محدود نہیں رہے گا۔

اسی طرح کشمیر کے مسئلے پر بھی ایران واحد اسلامی ملک ہے، جس نے انڈیا کو سختی سے تنبیہ کی اور پاکستانی موقف کی حمایت کی، جبکہ ایک اسلامی ملک نے تو اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں پاکستانی موقف کی حمایت کو رد کر دیا تھا اور اصرار کرنے پر پاکستان سے الٹا ایک ارب ڈالر قرض کی واپسی کا مطالبہ کر دیا تھا، جس پر پاکستان کو دوسرے دوست ملک سے قرض لے کر ادائیگی کرنا پڑی۔ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے حالات میں اتار چڑھاو تو آتے رہتے ہیں، لیکن ہمیں اصل دوست اور مفاد پرستوں میں کم از کم فرق کرنا چاہیئے۔ یہ سچ ہے کہ مکہ و مدینہ میں موجود مقدس مقامات کی وجہ سے ہی دراصل ہماری ان علاقوں سے عشق اور محبت قائم و دائم ہے، جبکہ ایران اور عراق میں بھی اسی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اولاد اور اہلبیت علیھم السلام کے مزارات موجود ہیں۔

ہر سال زائرین کی بہت بڑی تعداد پاکستان سے ایران کی طرف سفر کرتی ہے اور بیشتر افراد ایران میں زیارات کرنے کے بعد عراق کی طرف جاتے ہیں۔ محرم الحرام میں یہ تعداد لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے اور ہر سال محرم میں کربلا میں پانچ سے چھ کروڑ افراد جمع ہوتے ہیں اور پاکستان اور عراق کا زمینی رابطہ ایران کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ سیاحت اور تجارتی مقاصد کیلئے بھی افراد کی بڑی تعداد ایران جاتی ہے اور پاک ایران تعلقات میں یہ بھی ایک اہم نقطہ ہے۔ 2019ء میں اپنے ایران کے دورے کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کو اب عزم کیساتھ ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا ہوگا اور دونوں ملکوں کی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ سابقہ حکومت کے دوران پاکستان اور ایران کے تعلقات میں مزید بہتری آئی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات پر بہت زور دیا گیا۔

ایران پر موجود بین الاقوامی پابندیاں اور اس کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ اور بینکنگ معاملات کا نہ ہونا پاک ایران تجارتی پیشرفت میں بڑی رکاوٹ بنے رہے۔ لیکن عمران خان کی حکومت کے دوران اس کا حل بارٹر ٹریڈ کے طور پر نکالا گیا۔ جس کیلئے دونوں ممالک کے تجارتی وفود کے تبادلے بھی ہوئے۔ نتیجتاً زاہدان اور کوئٹہ چیمبرز کے درمیان معاہدہ ہوا۔ جس میں پہلے مرحلے میں چاول اور ایل پی جی کے تبادلے پر اتفاق کیا گیا۔ عملی اقدامات کے طور پر ہمیں لاہور میں پاک ایران بارٹر تجارتی نمائش بھی دیکھنے کو ملی اور اس کیساتھ ساتھ اگلے مہینوں میں دارالحکومت اسلام آباد میں ایک بہت بڑی پاک ایران نمائش کا انعقاد بھی ہونے جا رہا ہے۔ یہ تجارتی نمائشیں تو اپنی جگہ ایک خوش آئند بات ہیں، سوال یہ ہے کہ دونوں برادر ممالک کو مشکلات کے حل میں اس سے بہت زیادہ آگے جانا چاہیئے تھا۔

اس وقت پاکستان میں توانائی کے اہم شعبوں اور بجلی، گیس اور تیل کا فقدان ہے، جبکہ برادر ملک ایران میں توانائی کے ان شعبوں کی فراوانی ہے۔ پاکستانی عوام کے ذہنوں میں ایک ایسا سوال ہے، جس کا خاطر خواہ جواب نہیں ملتا کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جو پاکستان میں موجود توانائی کے بحران کو حل کرنے کیلئے برادر ملک ایران سے مدد لینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ کون سے طاقتیں ہیں، جو پاکستان میں ترقی اور استحکام نہیں چاہتیں، پاکستانی عوام کی خوشحالی نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اس وقت توانائی کے بحران سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں جبکہ ایران میں تیل گیس اور بجلی سستے داموں دستیاب ہے۔ ہم یہاں سے تو سستے داموں نہیں لے سکتے، لیکن دور دراز کے ملکوں سے بھاری قیمت پر خرید رہے ہیں نہ کہ وہ ہمیں مفت دے رہے ہیں، ہم تو مسلسل مختلف دباؤ اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں، نتیجتاً غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔ 14 اور 15 جون کو بلاول بھٹو ایران کے دورے پر ہیں۔ یہ دورہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبداللہیان کی دعوت پر کیا جا رہا ہے۔

اُمید ہے کہ ایران سے تعلقات کیساتھ ساتھ خصوصاً توانائی کے موجودہ بحران کو حل کرنے پر بھی پیشرفت ہوگی۔ تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں پیشرفت کی اہم ضرورت ہے۔ بجلی کی بندش کی وجہ سے انتہائی گرمی میں لوڈشیڈنگ اپنے عروج پر ہے جبکہ ایران پیشکش کر رہا ہے کہ وہ پاکستان کو بجلی دینے کیلئے تیار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دورے کے پیش نظر اس میں کتنی کامیابی ہوتی ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت کے آخری ایام میں گیس پائپ لائن معاہدے کی، کی گئی تجدید کو عملی جامہ پہنا سکیں گے۔؟ کیونکہ یہ خود ان کے دور کا ایک نامکمل منصوبہ ہے، جو کہ اب ان کیلئے ایک چیلینج ہے جبکہ ایران نے معاہدے کے مطابق کافی سالوں پہلے ہی ہماری سرحد تک گیس پائپ لائین کا کام مکمل کر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ مشترکہ سرحدی منڈیوں کے قیام اور اس میں بہتری کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان موجود سڑکوں اور ریلوے کے مسائل بھی حل ہونے چاہیئں۔ محرم الحرام بھی قریب ہے اور ہر سال زائرین کو بے شمار مسائل پیش آتے ہیں۔ خصوصاً زمینی بارڈر پر کیونکہ زائرین کی ایک بڑی تعداد بائی روڈ سفر کرتی ہے۔ ان مسائل کو بھی حل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ یہ وہ نکات ہیں، جو بلاول زرداری کے دورہ ایران کے موقع پر پاکستانی عوام کے ذہنوں میں اُبھر رہے ہیں۔ کیونکہ ایران تو خود پیشکش کر رہا ہے کہ توانائی کے بحران کی وجہ سے پاکستانی عوام مشکلات میں ہے اور ہم مدد کرنے کو تیار ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ پاکستان ایران سے سستے داموں بجلی گیس اور پیٹرول لے گا اور مشکلات میں پھنسے ہوئے عوام کو سکون میسر آسکے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …