جمعہ , 19 اپریل 2024

حکومت کی مہنگی ایل این جی کی خریداری پر لوڈشیڈنگ کو ترجیح 

بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور قلت کے دوران پاکستان نے جولائی میں ایل این جی کارگو کی فراہمی کے لیے موصول ہونے والی واحد 39.8 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی مہنگی پیشکش قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس طرح پاکستان کے پاس جولائی میں ایک مرتبہ پھر صرف 800 ملین کیوبک فیٹ (ایم ایم سی ایف ڈی) ایل این جی کے 8 کارگوز ہوں گے جو قطر کے ساتھ طویل المدتی معاہدے کے نتیجے میں ملیں گے۔

پیشکش جمع کرانے کے آخری روز جعمرات کو پاکستان کو جولائی کے ابتدائی تین ہفتوں 3 ایل این جی سلاٹس کے لیے کوئی پیشکش نہیں ملی لیکن جولائی کے آخری ہفتے کے سلاٹ کے لیے مہنگی ترین بولی موصول ہوئی۔

پیشکشیں نہ ملنے کی وجہ روس سے گیس سپلائی میں آنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے یورپی صارفین کی اسپاٹ مارکیٹ میں زیادہ خریداری ہے۔

پاکستان ایل این جی لمیٹڈ نے جولائی کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں ایک، ایک آخری ہفتے میں دو کارگوز کے لیے 16 جون کو ٹینڈر جاری کیا تھا لیکن 2-3 جولائی، 8-9 جولائی اور 25-26 جولائی کے لیے کوئی پیشکش موصول نہیں ہوئی۔

پی ایل ایل کی جانب سے جولائی کے پہلے ہفتے میں ایل این جی کارگو حاصل کرنے کی یہ تیسری ناکام کوشش تھی، اس سے پہلے 31 مئی اور 7 جون کو جاری کیے گئے دو ٹینڈرز پر بالترتیب دو اور ایک پیشکش موصول ہوئی تھی تکنیکی جواب نہیں مل سکا یوں وہ پیشکشیں ختم ہوگئیں۔

تاہم 30 سے 31 جولائی کے لیے قطر انرجی ٹریڈنگ کی جانب سے 39.8 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی ریکارڈ بلند ترین قیمت پر ایک پیشکش موصول ہوئی تھی۔

 

ایک عہدیدار نے کہا کہ ’یہ پیشکش انتہائی مہنگی تھی اس لیے ہم نے ٹینڈر نہیں دیا پیشکش کی شرائط کے مطابق ہمارے پاس اسے مسترد کرنے کا خط لکھنے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت ہے، اس کے بجائے لوڈشیڈنگ کی طرف جانا بہتر ہوگا‘۔

پاکستان نے 2015 میں ایل این جی کی درآمد شروع کرنے کے بعد سے اب تک کی سب سے مہنگی پیشکش نومبر 2021 میں 30.65 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو قبول کی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے پروڈیوسرز کے علاوہ اسپاٹ مارکیٹ میں ایل این جی سپلائیرز امریکی حکومت کے زیر اثر ہیں کہ وہ یورپی ممالک کو ایل این جی کی زیادہ سے زیادہ سپلائی یقینی بنائیں جو کہ روس سے سپلائی میں رکاوٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی قیمت پر ایل این جی اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔

سستے طویل مدتی معاہدوں سے آنے والے کارگوز کی ایک بڑی اکثریت کے باوجود پاکستان میں ریگیسیفائیڈ ایل این جی کی قیمتیں حالیہ مہینوں میں پہلے ہی 40 فیصد بڑھ کر 22-24 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ چکی ہیں۔

کوئلے اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر ان ایل این جی کے نرخوں نے بجلی کے ایندھن کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ کر دیا ہے، جو کہ سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی طرف سے دعوی کردہ 7.95 روپے فی یونٹ اور کے الیکٹرک لمیٹڈ کی جانب سے اگلے مہینے 11.38 روپے فی یونٹ اضافی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔

ایل این جی کے سرکاری درآمد کنندگان پی ایس او اور پی ایل ایل مہنگی درآمدات پر بھی راضی ہوں گے کیونکہ وہ بالترتیب 3.22 فیصد اور 3 فیصد کی شرح سے اکاؤنٹ برقرار اور مارجن پر منافع کماتے ہیں، جو ظاہر ہے کہ زیادہ درآمدی قیمتوں کے ساتھ بڑھ جاتی ہے۔

یوکرین-روس کی صورتحال اور بین الاقوامی طلب و رسد کے اتار چڑھاؤ کے باعث اسپاٹ ایل این جی کارگوز کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جو بظاہر پاکستان کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں اور ایل این جی درآمد کنندگان کے لیے لیکویڈیٹی کی ضروت بڑھ گئی ہے۔

ایل این جی کے علاوہ پی ایس او پاور سیکٹر کی طلب پوری کرنے کے لیے فرنس آئل بھی درآمد کررہا ہے جس سے مالی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …