جمعرات , 18 اپریل 2024

توانائی کا مستقبل، لیتھیم بیٹری کتنی موثر؟

لاہور: (تنزیل الرحمان جیلانی ) ماہرین برسوں سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے دنیا کو آگاہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2042ء تک دنیا کی آبادی میں دو ارب کااضافہ ہو سکتا ہے ۔ اس وقت دنیا کی آبادی تقریباً7.9ارب ہے جو20سال میں بڑھ کرتقریباً10ارب ہو سکتی ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے انسانوں کی ضروریات میں بھی اضافہ ہورہا ہے خصوصاً ایسی ضروریات جو توانائی کے ذریعے پوری کی جاتی ہیں۔توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دنیا کا ایک بڑا حصہ تیل اور کوئلے پر انحصار کرتا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔1992ء میںریو میں ہونے والی کانفرنس ہو یا2015ء کا پیرس معاہدہ، سب ہی ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے اور کاربن کے کم سے کم اخراج کیلئے اٹھائے جانے والے اہم اقدامات ہیں۔

ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کو کم کرنے کیلئے دنیا کے درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری کم کرنا ہوگا اور ایسا کرنے کیلئے توانائی حاصل کرنے کے روایتی طریقوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ماہرین کو یقین کے کہ گرین ہائیڈروجن دنیا کیلئے توانائی کا مستقبل بن سکتی ہے۔اسی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک گرین ہائیڈروجن کے استعمال کو بڑھانے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔گرین ہائیڈروجن الیکٹرو لائسس کے ذریعے پانی سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس عمل میں پانی میں سے کرنٹ کو گزارا جاتا ہے جس سے پانی میں موجود آکسیجن اور ہائیڈروجن الگ ہو جاتے ہیں۔اس عمل کے نتیجے میں گرین ہائیڈروجن حاصل کی جاتی ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ الیکٹرو لائسس میں کرنٹ دینے کیلئے جس توانائی کا استعمال کیا جائے وہ قدرتی طریقوں سے حاصل کی گئی ہو مثلاً سولرپاور یا ونڈ مل سے حاصل ہونے والی توانائی۔ہائیڈروجن کو پانی سے اس لئے الگ کیا جاتا ہے تاکہ اسے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا مستقبل ہے اور کچھ سائنسدان اس کو’’ الٹی میٹ گرین فیول‘‘ بھی کہتے ہیں۔اسے دنیا کیلئے اس لئے مفید سمجھا جاتا ہے کہ گرین ہائیڈروجن کے استعمال سے ماحول میں کاربن کا اخراج بالکل نہیں ہوتا۔

اگر صرف ماحول دوست توانائی استعمال کرنا مقصد ہو تو اس وقت دنیابھر میں الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال کیا جا رہاہے۔ان گاڑیوں سے بھی ماحول کو محفوظ بنانے میں مدد حاصل ہو رہی ہے کیونکہ ان سے کاربن خارج نہیں ہوتا۔الیکٹرک گاڑیوں میں لیتھیم آئن بیٹریوں کا استعمال کیاجاتا ہے۔ اگر لیتھیم اور ہائیڈروجن کا موازنہ کیا جائے تو بیشک لیتھیم ہائیڈروجن کے مقابلے توانائی حاصل کرنے کا زیادہ سستا اور آسان طریقہ ہے۔لیتھیم آئن بیٹریاں جن گاڑیوں میں استعمال کی جا رہی ہیں انہیںصرف کم دوری کے سفر کیلئے ہی استعمال کیا جا سکتاہے۔ لوگ طویل سفر کیلئے ہوائی جہاز یا ٹرین کا انتخاب کرتے ہیں اور کارگو کیلئے دنیا بھر میں بحری جہازوں کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ان دونوں ذرائع آمدورفت میں فوسل فیول کا استعمال کیا جاتا ہے۔اس صورتحال میں ہائیڈروجن فیول دنیا کیلئے ایک نعمت ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ لیتھیم کے مقابلے میں ہائیڈروجن کو سٹور کرنا زیادہ آسان ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال کی جانے والی سب سے ہلکی بیٹری کا وزن آدھے ٹن کے برابر ہے لیکن اس کے مقابلے میں کچھ کلوگرام ہائیڈروجن فیول اس سے زیادہ توانائی پیدا کر سکتا ہے اور گاڑی الیکٹرک بیٹری کی نسبت زیادہ طویل سفر طے کر سکتی ہے۔

لیتھیم آئن بیٹری کو تیار کرنا اس لئے بھی مشکل ہے کیونکہ اس کیلئے لیتھیم، گریفائٹ، کوبالٹ اور میگنیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ وقت میں چائنہ دنیا میں سب سے زیادہ لیتھیم بیٹریاں بنانے والا ملک ہے اور لیتھم کے سب سے زیادہ ذخائر چلی کے پاس موجود ہیں۔لیتھیم کے حصول کیلئے دنیا کے کئی ممالک کو ان دو ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے لیکن گرین ہائیڈروجن کیلئے کسی دوسرے ملک پر انحصار کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

لیتھیم آئن بیٹری کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ مدت 6 سے 7 سال کے درمیان ہوتی ہے لیکن گرین ہائیڈروجن کو لمبے عرصے تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیتھیم پر ماحول اور درجہ حرارت بھی اثر انداز ہوتا ہے لیکن ہائیڈروجن کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ گرین ہائیڈروجن کومستقبل کا ایندھن ا س لئے بھی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ دنیا بھر میں خام تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ہو یا مشرق وسطیٰ میں جاری طاقت کی سیاست سب ہی تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔عالمی انرجی کانسل کے مطابق ایک لیٹر ہائیڈروجن فیول ایک لیٹر پیٹرول کی نسبت تین گنا اور ایک کلو گیس کے مقابلے میں ڈھائی گنازیادہ توانائی پیدا کرتا ہے۔

ہائیڈروجن فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا اب تک اس کو مکمل طور پر اپنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ ہائیڈروجن ، آگ بہت جلدی پکڑ لیتی ہے، اس لئے ہائیڈروجن ٹینک میں معمولی سی لیکج کسی بھی خوفناک حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ 2011ء کو جاپان میں شدید زلزلہ آیا جس کی وجہ سے فوکوشیما نیوکلیئر پاور پلانٹ میں ہائیڈروجن لیک ہو گئی اور پاور پلانٹ میں دھماکہ ہو گیا۔ دھماکے کی وجہ سے پورے علاقے میں ریڈی ایشن پھیل گئی اور لاکھوں لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا۔اس حادثے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1989ء میں ہونے والے چرنوبل سانحہ کے بعد اسے دنیا کا سب سے بڑا نیوکلیئر حادثہ سمجھاجاتا ہے۔ایک چھوٹی سی غلطی ہائیڈروجن کو ایک بم میں تبدیل کر سکتی ہے۔

تنزیل الرحمن نوجوان صحافی ہیں، تحقیق کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور "دنیا” میڈیا گروپ سے منسلک ہیں

یہ بھی دیکھیں

رحیم یار خان : دو قبیلوں میں تصادم کے دوران آٹھ افراد جاں بحق

رحیم یار خان:رحیم یار خان کے نزدیک کچھ ماچھک میں دو قبیلوں میں تصادم کے …