بدھ , 24 اپریل 2024

لاہور میں سینئر صحافی ایاز امیر پر نامعلوم افراد کا مبینہ حملہ

لاہور میں سینئر صحافی ایاز امیر پر نامعلوم افراد کی جانب سے مبینہ طور پر حملہ کیا گیا اور ان کا موبائل اور پرس بھی لے گئے۔

نجی ٹی وی ‘دنیا نیوز’ سے منسلک سینئر صحافی ایاز امیر نے حملے کے حوالے سے بتایا کہ آج ہم پروگرام کے بعد نکلے تو ایک گاڑی نے بڑے عجیب طریقے سے میری گاڑی کو روکا، ایک آدمی نے کورونا والا ماسک پہن کر ڈرائیور کو جھپٹ لیا، ہم نے کھڑکی کے شیشے نیچے کیے کہ یہ گاڑی ایسے کیوں چلا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اس سے تکرار کر رہا تھا کہ تم کون ہو تو دو آدمی میری طرف آئے اور مجھے مارا اور کھینچ کر زمین پر گرا دیا اور وہاں بھی باقاعدہ حملہ کیا گیا کیونکہ یہ سڑک پر رش ہوتا ہے تو وہاں پر لوگ اکٹھا ہو گئے، میرا پرس اور موبائل جو سامنے پڑے ہوئے تھے وہ بھی لے گئے۔

وئٹر پر تصاویر گردش کر رہی ہیں، جس میں وہ اپنی کار میں بیٹھے ہیں جبکہ ان کی قمیض پھٹی ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ایاز امیر کی جانب سے ایک سیمینار میں خطاب کے بعد یہ واقعہ پیش آیا، جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی موجود تھے، اس سیمینار کو اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جس کا موضوع ‘ رجیم چینج اینڈ اٹس فال آؤٹ آن پاکستان’ تھا۔

ان کی تقریر کے جو حصے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے اور سینئر صحافیوں کی جانب سے اس کو شیئر کیا گیا، ان میں ایاز امیر پاکستان میں ملیٹری اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تنقید کر رہے تھے جبکہ وہ عمران خان کو ان کے دور میں کی گئیں غلطیوں کی بھی نشاہدی کر رہے تھے۔

ایاز امیر پر حملے کی اطلاعات کے فوراً بعد عمران خان نے سینئر صحافی پر پُرتشدد حملے کی شدید مذمت کی۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ٹوئٹ میں کہا کہ صحافیوں، اپوزیشن اور شہریوں کے خلاف تشدد اور جعلی ایف آئی آرز کے ساتھ پاکستان بدترین فسطائیت کی طرف جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ریاست اخلاقی اختیار کھو دیتی ہے تو وہ تشدد کرتی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا واقعے پر نوٹس، ملزمان کو جلد گرفتار کرنے کا حکم

وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے سینئر صحافی و کالم نگار ایاز میر پر تشدد کے واقعے کا نوٹس لے کر انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) سے رپورٹ طلب کر لی اور احکامات دیے ہیں کہ ملزمان کو جلد گرفتار کیا جائے۔

 

وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعلی حمزہ شہباز نے کہا کہ ایاز میر پر تشدد کے واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد گرفتار کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کو قانون کی گرفت میں لا کر مزید کارروائی کی جائے، ایاز میر پر تشدد کا واقعہ قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔

دوسری طرف سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے نوٹس لیتے ہوئے ایس پی سول لائنز سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

سی سی پی او لاہور نے سینئر صحافی پر مبینہ تشدد کے واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

سی سی پی او نے ہدایات جاری کیں کہ سی سی ٹی وی کیمروں اور شواہد کی مدد سے تشدد میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری عمل میں لائیں۔

 

بعد ازاں، ایس پی سول لائنز رضا صفدر کاظمی نے نجی ٹی وی چینل کے دفتر جا کر سینئر صحافی ایاز امیر سے واقعے کی تفصیلات حاصل کیں۔

ایس پی سول لائنز نے تشدد میں ملوث نامعلوم افراد کو ٹریس کرکے جلد گرفتاری کی یقین دہانی کروائی۔

مذمت اور فوری کارروائی کا مطالبہ

صحافیوں، وکلا ، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی نے ایاز امیر پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی عندلیب عباس نے ٹوئٹ میں کہا کہ یہ سچائی کو کچلنے کی بری کوشش ہے۔

سینئر صحافی مظہر عباس نے ٹوئٹ میں کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے۔

سینئر صحافی کامران خان نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق استعمال کرنے والوں کو مار کر خاموش کرنے سے بہتر ہے کہ حکومت آزادی اظہار پر پابندی لگادے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایاز امیر پر حملہ قابل مذمت ہے۔

صحافی منصور علی خان نے اس واقعے کو انتہائی قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی اولین ترجیح حملہ آور کو گرفتار کرنا ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ شرمناک ہے کہ اس دور میں کس طرح آوازوں کو خاموش کیا جارہا ہے۔

صحافی عامر متین نے کہا کہ ایاز امیر پر حملہ افسوسناک ہے، ایسا تو مارشل لا کے دوران بھی نہیں ہوتا۔

انہوں نے شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے کسی سے پوچھنے کی ہمت کریں۔

صحافی رؤف کلاسرا نے کہا کہ یہ جان کر دکھ ہوا کہ احترام کیے جانے والے ایاز امیر پر حملہ کیا گیا۔

یہ بھی دیکھیں

رحیم یار خان : دو قبیلوں میں تصادم کے دوران آٹھ افراد جاں بحق

رحیم یار خان:رحیم یار خان کے نزدیک کچھ ماچھک میں دو قبیلوں میں تصادم کے …