جمعرات , 25 اپریل 2024

تباہ شدہ گھر کے ملبے سے رخصت ہوتی فلسطینی دلہن

ربیحہ رجبی کے بقول: ’ہمارے اور بھی منصوبے تھے لیکن مکانات گرائے جانے کی کارروائی اور ہمارے مشکل حالات زندگی کی وجہ سے سب کچھ بدل گیا۔

22 سالہ دلہن نے بتایا کہ وہ کم عمری میں بیت المقدس کے دوسرے حصے سے عین اللوزا کے قریبی علاقے میں منتقل ہوئی تھیں۔

فلسطینی خاتون ربیحہ رجبی نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں مقبوضہ مشرقی بیت القدس میں واقع اپنے گھر کے ملبے پر اپنی شادی کی تقریبات کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ ان کا گھر اسرائیلی حکام نے تباہ کیا۔

فسلطین کے روایتی عرعوسی جوڑے میں ملبوس اور مہندی لگے ہاتھوں کے ساتھ گھر کے ملبے پر کھڑی رجبی کا کہنا تھا: ’اس سے پہلے کہ کوئی چیز ہمارے گھر کو آ کر لگتی اس نے ہمارے دلوں کو نشانہ بنایا۔ یہ ہمارا گھر تھا، ہمارا خواب تھا، ہماری یادیں تھیں۔‘

 

22 سالہ دلہن نے بتایا کہ وہ کم عمری میں بیت المقدس کے دوسرے حصے سے عین اللوزا کے قریبی علاقے میں منتقل ہوئی تھیں۔ ان کے خاندان کو کئی سالوں میں کئی بار مکان گرانے کا حکم دیا گیا جس سے انہیں پریشانی ہوئی۔

عرب روایت میں شادی کے دن دولہے کا خاندان دلہن کو اس گھر میں خوش آمدید کہنے کے لیے پہنچتا ہے جہاں وہ پلی بڑھی ہو۔ یہ جذباتی تقریب اس نئی زندگی کی علامت ہوتی ہے۔ جو وہ شروع کرنے والی ہوتی ہے۔

ربیحہ رجبی کے بقول: ’ہمارے اور بھی منصوبے تھے لیکن مکانات گرائے جانے کی کارروائی اور ہمارے مشکل حالات زندگی کی وجہ سے سب کچھ بدل گیا۔‘

2009 کے بعد سے جب اقوام متحدہ نے اس فلسطینیوں کے مکانات گرانے کی کارروائی کو دستاویزی شکل دینا شروع کی، تب سے مشرقی بیت القدمس میں تین ہزار سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ اسرائیلی حکام نے ان کے مکانات کو مسمار کر دیا ہے یا مالکان کو مجبور کیا کہ وہ مکان گرا دیں۔

مکان گرانے کے احکامات کی وجہ سے مزید ہزاروں افراد بے گھر ہونے کے خطرے سے دو چار ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …