ہفتہ , 20 اپریل 2024

مغرب چاہتا ہے کہ اسلام کا محمدی اور علوی تشخص باقی نہ رہے: علامہ امین شہیدی

مغربی ایشیا میں خاص طور پر گزشتہ سال ١۵ اگست کو امریکی دہشتگردوں کی سربراہی میں قابض مغربی افواج کے افغانستان سے غیر ذمہ دارانہ انخلا کے بعد وسیع پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ منجملہ افغانستان میں عبوری حکومت کی تشکیل اور کابل اور اسلام کے مابین باہمی تبادلات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب سے گزشتہ مہینوں میں خاص طور پر ہندوستان میں پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی شان میں توہین کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی جانب سے وسیع پیمانے اور طویل مدت تک احتحاجات دیکھے گئے جس نے اس خطے کی صورتحال تبدیل کردی اور توجہات کا مرکز بن گیا۔

ان تبدیلیوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے تنوع اور وسعت کو شمالی اور مغربی ایشیا کے حالات خاص طور پر شام و عراق کے مسئلے اور قدس شریف پر قابض ناجائز حکومت کی توسیع پسندی سے غیر مربوط نہیں سمجھ سکتے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے اس حوالے سے علامہ محمد امین شہیدی کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کی جس میں مذکورہ بالا مختلف مسائل پر روشنی ڈالی گئی۔ یاد رہے کہ علامہ محمد امین شہیدی پاکستان، مغربی ایشیا، عالم اسلام اور مختلف عالمی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

علامہ امین شہیدی اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سابق رکن، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سابق ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور قومی یکجہتی کونسل پاکستان کے نائب صدر رہ چکے ہیں اور اس وقت امت واحدہ پاکستان کے سربراہ ہیں۔

ذیل میں مہر نیوز کی اس خصوصی گفتگو کا پہلا حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

آپ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی شان میں گستاخی اور توہین، خاص طور پر ہندوستان میں حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا، کے پس پردہ کیا مقاصد دیکھتے ہیں؟

بطور کلی اگر دیکھا جائے تو موجودہ دور میں سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اسلام ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام اپنی حفاظت کرنا چاہے تو اسے اسلام کے مقابلے میں کھڑا ہونا ہوگا، کیونکہ اس وقت پوری دنیا پر یہ نظام ملسط ہے اور پوری دنیا اور تمام ملک اسی کی چھتری تلے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام انسان کو صرف اس کے ذاتی مفادات کے حصول کی طرف لے کر جاتا ہے۔ یہ نظام انسان کو اخلاقی، انسانی اور معنوی اقدار سبھی سے دور کردیتا ہے۔ دوسری جانب سے اگر اسلام کو دیکھا جائے تو اسلام اور اس کی تعلیمات انسانی فطرت سے ہماہنگ ہیں، اگر آپ اس وقت تھوڑا سا مطالعہ فرمائیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ سارے مغرب اور یورپ میں چاہے امریکہ ہو یا یورپی ممالک، چاہے برطانیہ ہوعیسائی ہیں لیکن عیسائیت نہیں ہے۔ لہذا اگر آپ وہاں دیکھیں تو لوگ ایک مشکل سے دوچار ہیں، ان کی مشکلات کیا ہیں؟ روحانی اعتبار سے تمام لوگ معنویت کے محتاج ہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر سرچ کرلیں اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ فرانس والے کہتے ہیں کہ ۴۰ سال کے بعد فرانس کے لوگوں کی اکثریت مسلمان ہوگی، جرمنی والے بھی اسی مسئلے سے خوفزدہ اور تشویش کا شکار ہیں اور کہتے ہیں کہ ۴۰ سال کے بعد ہمارے ملک کی اکثریت یا ملک کی سب سے بڑی آبادی کو مسلمان تشکیل دیں گے۔ ان کی روحانی او رمعنوی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں اور لوگ اسلام کی جانب مائل ہوتے جا رہے ہیں۔ لہذا سب سے بڑا چیلنج جس کا انہیں سامنا ہے وہ اسلام ہے، اب اگر تم اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے ہو، تمہیں کس طرح مقابلہ کرنا ہوگا کہ لوگ اسلام سے بدبین ہوں، بہت خوب، بہت سے راستے ہیں، وہی راستے جن سے سامراجی اور استعماری قوتوں نے ہمیشہ کام لیا ہے۔ پہلا کام تفرقہ پھیلانا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالا جائے، تفرقہ ڈالنے کے بعد دوسرا کام فسادات، جنگ اور قتل و غارت پھیلانا ہے، اس حوالے سے بھی آپ دیکھیں گے کہ اختلاف اور تفرقے کے اسباب کو وہ لوگ فراہم کرتے ہیں اور پیسہ بہاتے ہیں، جنگ کی صورتحال بھی تیار کرتے ہیں، ایسے مقاصد کو ایک کام سے آگے نہیں بڑھاتے۔

داعش بنانے کا مقصد کیا تھا؟ یہی مقصد تھا۔ پورے عالم اسلام میں پائے جانے والے دہشتگرد گروہ، چاہے مشرقی ایشیا میں ہوں، یا مغربی ایشیا میں یا مغربی دنیا میں، یہ گروہ اپنے شدت پسندانہ کردار کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے تھے۔ یہ سب کس لئے تھا؟ اسی لئے تھا کہ اسلام کے متعلق مغربی معاشروں میں اس مطلوبہ بدبینی کو ایجاد کرسکیں، اسلام کو شدت پسند ترین نظام اور آئیڈیالوجی کے طور پر متعارف اور پیش کرسکیں، یہ ایک راستہ ہے، اسلامی معاشروں میں تفرقہ، فرقہ واریت کا پھیلاؤ، تصادم اور فسادات پھیلانا، نسلی اور لسانی جنگیں کروانا اور پھر دہشتگرد گروہ بنانا اور انہیں مسلح کرنا، اسلامی ملتوں میں داخلی جنگیں چھیڑنا اور انہیں بدترین مظالم کی جانب دھکیلنا کہ جن کی ویڈیوز تمام عالم میں منتشر کرسکیں اور کہیں کہ اسلام یہ ہے، مقصد اسلام کی پیش رفت اور پھیلاؤ کو روکنا ہے، مغرب کے باشندوں کو اسلام قبول کرنے سے روکنا ہے، اس مقبولیت کو نیچے لانا ہے، یہ سب سے بڑا مقصد ہے۔ اس سلسلے میں وہ لوگ کئی کام کر رہے ہیں، اسلامی ملکوں میں اسلامی ثقافت کو تبدیل کرنا ان کے مقاصد میں سے ایک ہے، تعلیمی نظام، نصاب اور کورسز تبدیل کرنا ان کے بڑے اہداف میں شامل ہے، دین کے حوالے سے بدبینی پھیلانا، خدا کے حوالے سے، اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی اقدار کے حوالے سے بدبینی پھیلانا ان کے شیطانی اہداف میں سے ایک ہے، جب یہ کام کرلیں گے، قباحت کو مٹا دیں گے اور جب ایک کام کی قباحت کو ختم کردیں تو آج ایک آدمی یہ کام دے گا، کل ١۰ آدمی اس کام کو انجام دیں گے، پرسوں ١۰۰ آدمی یہ کام کریں گے۔

آپ کو مثال دیتا ہوں، مجھے ایران کا نہیں معلوم؛ تاہم ستر کی دھائی میں ہمارے پاس پاکستان میں صرف ایک ٹی وی چینل تھا، وہ بھی بلیک اینڈ وائٹ تھا۔ ابھی انقلاب نہیں آیا تھا، یعنی تقریباً ۴۵ سال پہلے کی بات کر رہا ہوں، ایک ٹی وی چینل فلم چلاتا تھا، جو فلمیں یہ چلاتا تھا سینسر کی جاتی تھیں اور سینسر ہونے کے بعد جب ان فلموں کو ٹی وی پر پیش کیا جاتا تھا عوام اعتراض کرتے تھے، کہتے تھے کہ تم لوگ ہمارے گھروں میں ایک نئی ثقافت داخل کر رہے ہو، اس ثقافت کی وجہ سے ہم اپنی ثقافت کھو دیں گے، ہماری ثقافت دینی اور مذہبی ہے، عریانی کی ثقافت نہیں ہے، مرد و خواتین کے میل ملاپ کی ثقافت نہیں ہے، عشق و عاشقی وہ بھی جنسی نوعیت کی نہیں ہے، لہذا آپ کو یہ فلمیں نہیں چلانا چاہئیں، لہذا ان فلموں کی کیفیت کیا تھی؟ اگر آپ آج انہی فلموں کو لے آئیں تو آپ برجستہ کہیں گے کہ یہ فلمیں تو اسلامی ہیں، چونکہ اس زمانے میں معاشرہ ان جیسی فلمیں بنانے کا متحمل نہیں تھا، اسی لئے فلمیں اس طرح بنائی جاتی تھیں کہ لوگ اعتراض نہ کریں، ڈرتے تھے۔ معاشرے میں ان غیر اخلاقی اقدار کی قباحت زندہ تھی۔ لہذا جب یہ فلمیں بنیں اور ٹی وی پر پیش کی گئیں عوام نے اعتراض کیا، سینسر کے بعد بھی اعتراض کیا؛ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ۴۰ سال گزر گئے، اس وقت ہر گھر میں سو سو چینل ہیں، اس گھر کا ہر فرد ان چینلز کو دیکھتا ہے، بہن بھائی اور باپ بیٹی مل کر دیکھتے ہیں۔ ان فلموں کے بہت حصے بالکل بھی اس قابل نہیں ہوتے کہ دو افراد جو بہن بھائی، ماں بیٹی، ماں بیٹا، باپ بیٹی ہوں اخلاقی لحاظ سے انہیں دیکھیں، تاہم آہستہ آہستہ ان کی قباحت کو مٹا دیا گیا اور اسے ثقافت کا حصہ بنا دیا، یعنی ایک معاشرہ کسی چیز کو برا سمجھتا ہے لیکن کچھ مدت کے بعد جب آہستہ آہستہ معمول ہوگیا تو اب وہی بری چیزیں کیونکہ اقدار بدل گئیں، اچھی بن جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ فکری طور پر اسرائیل اور صہیونیوں کے بہت نزدیک ہیں اور عملی طور پر بھی اپنے تجربات ایک دوسرے کو منتقل بھی کر رہے ہیں

آپ جب اس نظر سے اور ان نکات کو مد نظر رکھ کر اس مسئلے کو دیکھیں کہ مغرب گزشتہ سالوں میں کیوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی شان میں، اللہ کی کتاب قرآن کے حوالے سے توہین کرتا رہتا تھا کہ ہر جگہ لوگوں کی صدائے احتجاج بلند ہوجاتی تھی، یہ سب اسی لئے تھا کہ ان کاموں کی قباحت کو ختم کردیں، اور لوگوں کو بتدریج عادی بنادیں کہ نہیں یہ توہین بھی ممکن ہے، جب بھی کوئی مسلمان کسی مغرب والے پر اعتراض کرتا تھا کہ آپ ہمارے نبی کی شان میں توہین کر رہے ہیں، یہ کام نہ کریں، تو وہ بولتے تھے کہ یہ توہین نہیں ہے، اظہار رائے کی آزادی ہے، جب کہا جاتا کہ اظہار رائے کی آزادی کی بھی ایک حد ہے، کہتے تھے کہ ہم حضرت عیسی کے حوالے سے بھی یہ کام کرتے ہیں، حضرت موسی کے حوالے سے بھی یہ کام کرتے ہیں، کہتے تھے کہ اظہار رائے کی آزادی کی کوئی حد نہیں ہے، ہم حضرت عیسی اور حضرت موسی کے حوالے سے بھی یہ کام کرتے ہیں! جب ہمیں انبیاء کے حوالے سے اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے تو پیغمبر اسلام کے حوالے سے آزادی کیونکر حاصل نہ ہو! اپنے کام کے جواز پر یہ دلیل دیتے تھے، تاہم اصلی مقصد یہ تھا کہ مقدسات کو ختم کردیں، اگر مقدسات کے احترام کو ختم کردیں تو در نتیجہ دین کھوکھلا ہوجاتا ہے اور اس کی روح مٹ جاتی ہے۔ دین نشانے پر ہے اور اگر دین کو نشانہ نہ بنائیں تو اسلام سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ لہذا مسلمانوں کو اپنے دین اور معاشروں کی حقیقی اقدار کی بہ نسبت بے حس بنانے کے لئے اور اس حساسیت کو کم کرنے کے لئے آئے روز کسی مسئلے کو اچھالتے تھے تاکہ آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہن عادی بن جائیں، اگر آپ کچھ عرصہ پہلے کو دیکھیں تو زبردستی حجاب کو ختم کرنا چاہتے تھے،کیونکہ دینی اقدار کو مشکوک بنانا چاہتے تھے، مسمانوں کا سرے صفایا کرنا چاہتے تھے، تمام لوگ یا ہندوؤں جیسے ہوجائیں یا ان کی طرح زندگی گزاریں اور تمام اقدار کی کھلی چھوٹ ہو، وہاں پر بھی سب سے پہلے باحجاب اور غیرت مند مسلمان خواتین اور لڑکیوں نے اعتراض کر رہی تھیں اور ان کی آواز ہر جگہ پھیل رہی تھی۔ یہ ان کا دوسرا کام ہے تاہم کیا ان کا کام یہی ہے کہ یا پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی توہین کریں یا حجاب کی مخالفت کریں؟ یہ ان کے کام کا صرف ایک حصہ ہے، کیونکہ یہ لوگ فکری طور پر اسرائیل اور صہیونیوں کے بہت نزدیک ہیں اور عملی طور پر بھی اپنے تجربات ایک دوسرے کو منتقل بھی کر رہے ہیں۔ لہذا اسرائیلیوں کے جو رابطے ہندوؤں کے ساتھ ہیں دوسری اقوام کے ساتھ کم ہی ہوں گے، کیونکہ ان کا دشمن اور مقاصد مشترکہ ہیں،لہذا ہندوؤں نے اس مسئلے میں اسرائیلیوں اور صہیونیوں سے بہت سی چیزیں سیکھی ہیں، ہندوستان میں کوئی بھی مسلمان آر ایس ایس پر اعتراض کرے اور اپنی اقدار کے لئے آواز اٹھائے تو بلڈوزر سے اس کا گھر منہدم کردیا جاتا ہے اور اس معاشرے کے دوسرے افراد خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ان کی آواز نہیں نکلتی۔ انہوں نے یہ طریقہ اسرائیلیوں سے سیکھا ہے اور اس حوالے سے اسرائیلی ہندوؤں کے استاد ہیں۔

اصلی منصوبہ یہ ہے کہ اسلام کو ختم کردیں اور ہندوستان میں بسنے والے ۲۰ کروڑ سے زائد مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو تبدیل کردیں۔ ان کے عقائد اور تشخص کو تبدیل کردیں لیکن طاقت کے زور پر۔ ثقافتی طور پر بھی اور عقیدتی طور پر بھی۔ جہاں پر ثقافتی طور پر تبدیلی ایجاد نہیں کرسکے وہاں پر قتل عام کرتے ہیں۔ انتخابات کے ایام میں ہم نے سنا اور ٹی وی پر دیکھا کہ ایک دن میں ہندوستان کے بعض علاقوں میں ہزاروں مسلمانوں کو مسلمان ہونے کے جرم میں ہلاک کردیا گیا، تاہم کہیں سے احتجاج کی آواز بلند نہیں ہوئی، وہاں پر انسانی حقوق اور دیگر چیزیں کہیں پر بھی مسلمانوں کے ساتھ نہ تھیں اور نہ دیکھی گئیں۔ حجاب، قرآن کی بے حرمتی اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی شان کیں گستاخی کے مسئلے میں بھی ایسے ہی ہے۔ یہ جو ہم سنتے ہیں کہ «الکُفرُ مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ» یعنی مغرب والے، ہندو اور صہیونی اسلام کے مشترکہ دشمن ہیں اور اس مسئلے میں فرقے کی بات نہیں ہوتی۔ جب وہ ہمیں مٹانا چاہتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ فلاں شیعہ ہے، سنی ہے، جعفری یا علوی ہے، اگر اسلامی تشخص رکھتے ہوں تو انہیں مٹانے کے درپے ہیں۔

آیہ کریمہ «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا»، کی بنیاد پر آپ کی نظر میں مسلمان کس طرح باہم متحد ہوسکتے ہیں، دوسرے الفاظ میں آپ کن چیزوں کو اسلامی امہ کے اتحاد کی عملی راہیں سمجھتےہیں؟

آپ کا سوال اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس کی بازگشت الٰہی ادیان اور خلقت اہداف کی طرف ہوتی ہے، جب ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ہے، پس اللہ تعالیٰ ایک منصوبہ بندی کے تحت خلق کرتا ہے، بغیر حکمت کے نہیں ہے، حکمت اور منصوبہ بندی کے تحت ہے، جب اللہ تعالیٰ خلق کرتا ہے، اپنی مخلوقات کے لئے بھی طے شدہ نقشہ رکھا ہوا ہے، افضل ترین مخلوق انسان ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے بھی منصوبہ بندی کی ہے اور اسی منصوبہ بندی کے تحت مخلوقات کو بھی خلق کیا ہے اور انسانوں کو بھی اور ان اہداف تک پہنچنے کے لئے بھی کہ جو اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہیں، کچھ راہیں معین کی ہیں۔ لہذا جب ہم حضرت آدم سے حضرت خاتم ﴿ص﴾ تک دیکھتے ہیں تمام انبیاء جب تشریف لائے، ان کا مقصد انسان کی رفعت، انسانی فکر کا ارتقا اور تربیت تھی۔ کیونکہ اگر اس انسان کی تربیت ہوجائے تو اس صورت میں وہ تمام مخلوقات سے افضل ہوسکتا ہے، اگر اس کی تربیت نہ ہو تو سب سے بدتر ہوگا۔ لہذا تربیتی راستے کی اللہ تعالیٰ نے نشاندھی کی اور انبیا کو بھی بھیجا جس کے نتیجے میں ہمارے پاس آسمانی کتابیں، آسمانی ادیان اور انبیائے الٰہی ہیں۔ خاتم الادیان اسلام ہے جبکہ خاتم الکتب، قرآن کریم ہے اور خاتم الانبیاء پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ ہیں۔ جب ہم اس نظر سے دیکھیں، تو اسلام گزشتہ تمام ادیان کا خلاصہ اور روح ہے۔ قرآن گزشتہ تمام آسمانی کتابوں کی روح ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی صورت میں جو راستہ دکھا یا ہے ، راہ انبیاء کا تسلسل بھی ہے اور انبیاء کی ان تعالیمات کا جامع بھی ہے، لہذا ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اسلام جامع ترین دین ہے، قرآن جامع ترین کتابِ ہدایت ہے اور اسلامی امہ بھی جامع ترین امت ہیں۔

جب ہم اس نتیجے تک پہنچے تو قرآن کریم کہتا ہے اِن کُنتم خَیرَ اُمة تم لوگ بہترین امت ہو، کس لئے؟ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر، کیونکہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو، سوشیالوجی اور اینتھروپولوجی جیسے علوم کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کسی معاشرے میں ہوں تو وہ معاشرہ زندہ ہوجاتا ہے، اگر نہ ہوں تو بظاہر معاشرہ زندہ ہوگا تاہم اس کا بدن زندہ ہوگا، اس کی روح ختم ہوچکی ہوگی، انسانی معاشرے کی روح اگر ختم ہوجائے تو کیا بچتا ہے؟ حیوانی زندگی، حیوانی زندگی کے ساتھ اگر انسان انسانی معاشرے میں زندگی بسر کرے تو اس کی زندگی کا اسلوب، کام اور ہدف سبھی حیوانی ہوجاتے ہیں، کیونکہ وہ انسانی روح کو کھو چکا ہے۔ لہذا جب ہم اسلام کو اس نظر سے دیکھتے ہیں تو اسلام چاہتا ہے کہ انسان روحانی ترقی حاصل کرے اور اپنے مطلوبہ مرتبہ اور مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ راستے جو پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ اور اہل بیت ﴿ع﴾ نے دکھائے ہیں، یہ راستے ہمیں اسی نقطے تک پہنچاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہیں۔

دین کے دشمن چاہے ظاہری ہوں یا باطنی، چاہتے ہیں کہ انسان اس نقطے تک نہ پہنچ سکیں، کیونکہ انسانوں کا اس نقطے تک پہنچنا اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور طاغوتوں کے اہداف کو ختم کردیتا ہے، کیونکہ اس جانب انسانی معاشرہ جتنا کمال پیدا کرتا جائے گا اس جانب طاغوت، اللہ کے دشمن اور ہر زمانے کے فرعون کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی لئے یہ دو قوتوں کے مابین ایک مقابلہ اور جنگ ہے، ایک الٰہی قوت اور ایک شیطانی قوت، ابلیسی اور حیوانی قوتیں۔ لہذا جب فرقوں کو دیکھتے ہیں، فرقہ بندی، فرقہ پرستی اور فرقہ واریت یا جو بھی تعبیر استعمال کرلیں، یہ چیزیں دینِ الٰہی کی روح سے ہماہنگ نہیں ہیں اور اسی لئے قرآن کریم نے فرقہ واریت کے متعلق بہت سی آیات اور متعدد مقامات پر رہنمائی کی ہے، سماجی نقصانات بھی بیان کئے ہیں اور انفرادی نقصانات بھی، لہذا اگر ہم ایک مطلوبہ معاشرے تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان مسائل کا سہارا لینا ہوگا جو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی ہمیں اس تکامل و ارتقاء تک پہنچائے جو انسانوں کی خلقت کا مطلوب و مقصود ہے، انبیاء کی بعثت کا ہدف اور مطلوب ہے،آسمانی کتب کے نزول کا مطلوب ہے، بنابرایں قرآن کریم جب یہودیوں سے، عیسائیوں سے مخاطب ہوتا ہے تو ان سب کو اتحاد اور وحدت کی دعوت دیتا ہے، قرآن کریم کہتا ہے تَعالَوا إِلیٰ کَلِمَةٍ سَواءٍ بَینَنا وَبَینَکُم یعنی اس کلمے کی جو تمام الٰہی اور آسمانی ادیان میں مشترک ہے، دعوت دیتا ہے، کیونکہ یہ کلمہ تمہیں ایک تسبیح کے دانے کی طرح ایک حقیقت کے گرد جمع رکھتا ہے، اگر ہم اسلامی فرقوں کے مابین دیکھیں تو اس جذبے کو اسلامی فرقوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ جب قرآن یہاں تک کہ اہل کتاب سے، جب ہم اہل کتاب کہتے ہیں یعنی عیسائی اور یہودیوں- کو پکارتا ہے اور انہیں دعوت دیتا ہے کہ آئیں اس مسئلے پر باہم بیٹھیں اور ہماری وحدت کا نقطہ اور ہمارے اشتراک کا نقطہ یہی کلمہ توحید قرار پائے جب آپ تھوڑا سا نیچے آئیں تو اسلامی فرقوں، مسالک اور مختلف اسلامی مناہج کے درمیان بطریق اولی یہ کام ہونا چاہئے اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا چاہئے، لہذا اسلامی معاشروں کی سربلندی، اتحاد اسلامی اور وحدت مسلمین قرآن پر عمل پیرا ہو کر ہی نتیجہ بخش ہوسکتی ہے، پس خود قرآن کی طرف پلٹنا ہوگا، اگر ہم قرآن کو تمام فرقوں کے لئے مرکزی نقطے اور نقطہ اشتراک کے طور پر قرار دیں تو اس صورت میں قرآن بھی آپ کو متفرق اور منتشر نہیں ہونے دے گا اور اختلاف سے متمسک ہونے نہیں دے گا، حیوانی زندگی بسر کرنے نہیں دے گا، کیونکہ تفرقہ حیوانی زندگی سے پھوٹتا ہے، اتحاد اور وحدت ملکوتی اور آسمانی زندگی سے سرچشمہ لیتے ہیں، لہذا بہت آسان ہے، اگر ہم قرآن کی جانب پلٹ جائیں تو ہماری زندگی خود بخود الٰہی اور اسلامی زندگی بن جائے گی اور ہمارا نعرہ انسانوں کے مابین وحدت کا نعرہ بن جائے گا، ادیان اور مسلمانوں سے کہیں بڑھ کر۔

موجودہ دور میں چونکہ ہمیں مختلف شیطانی قوتوں کی جانب سے انتہائی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اس اعتبار سے ہماری توجہات اپنے دینی مشترکات پر مرکوز ہونی چاہئیں، ہمارے دینی مشترکات یعنی وہ مشترکات جن پر تمام فرقے مشترکہ طور پر ایمان رکھتے ہیں اور انہیں اپنے ایمان کی علامت کےطور پر مانتے ہیں، جیسے کہ توحید ان تمام فرقوں میں مشترک ہے، آسمانی کتاب تمام فرقوں میں مشترک ہے، حضرت ختمی مرتبت ﴿ص﴾ تمام فرقوں کے مابین مشترک ہیں، عقیدہ معاد تمام فرقوں میں مشترک ہے، اخلاقی اقدار تمام فرقوں کے درمیان مشترک ہیں، اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ تمام فرقوں میں مشترک ہے، یہاں تک کہ انفرادی و اجتماعی اعتبار سے اور عبادات و معاملات میں بھی ۹۰ فیصد سے زیادہ امور تمام فرقوں کے مابین مشترک ہیں، ایک طرف سے مشترک عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسری طرف سے مشترکہ راہ عمل رکھتے ہیں، جب صورتحال یہ ہو تو بہت آسان ہے اگر ہم ان مشترکات پر پلٹ جائیں، ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں، بہت آسان ہے اور اگر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو ایک اسلامی امہ بن جائیں گے۔

اصلی ہدف اسلام ہے۔ مغرب چاہتا ہے کہ اسلام کا محمدی اور علوی تشخص باقی نہ رہے۔ وہ ایسے اسلام کو چاہتے ہیں کہ انسان شراب سے وضو کرکے نماز پڑھے۔ ایسے اسلام کو چاہتے ہیں کہ خنزیر کا گوشت کھائے اور نماز بھی پڑھے۔ اس طرح اسلام ثقافت کو معمول پر لائیں۔ امام خمینی نے ایک بات کہی تھی کہ اسلام ناب﴿خالص اسلام﴾ اور امریکی اسلام۔ امریکی اسلام وہ اسلام ہے کہ جو غیر موثر اور ایسا اسلام ہے جو صرف زبان کی حد تک ہے۔ ایسا اسلام جو اسلامی معاشروں میں انسانوں کی زندگی میں کوئی کردار نہ رکھتا ہو۔ چاہے ثقافت ہو، یا عقائد ہوں یا ذاتی زندگی۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس تہذیب و ثقافت کو بدل دیں۔ جب یہ ثقافت کو تبدیل کرلیں گے تو جہاد، حریت پسندی، انصاف پسندی اور ظلم سے مقابلے کا جذبہ مٹ جائے گا۔ اسرائیلی اور مغرب والے عربی ممالک کو ڈیموکریسی کے کسی مقام پر نہیں دیکھتے، مغرب کے تمام نعروں کا نچوڑ ڈیموکریسی ہے تاہم ان کے قریبی دوستوں کے درمیان سرے سے ڈیموکریسی کو وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر کہیں ایران جیسا ملک یا دیگر ممالک کہ جو ڈیموکریسی کی وجہ سے ان کے مقاصد کے سامنے کھڑا ہوجائیں، تو اس وقت جی ہاں، یہ جمہوریت اور ڈیموکریسی بری ہوجاتی ہے۔ لہذا مغرب کے نعرے کھوکھلے ہیں اور ان کا مقصد صرف اپنے مفادات کا حصول ہے۔
(جاری ہے)

یہ بھی دیکھیں

تصاویر: ورلڈکپ 2023 کے فائنل کے یادگار لمحات

تصاویر: ورلڈکپ 2023 کے فائنل کے یادگار لمحات