جمعہ , 19 اپریل 2024

کربلا ہی وہ درس گاہ ہے جو وقت کے امام کی اطاعت و نصرت کا درس دیتی ہے، علامہ امین شہیدی

اسلام آباد: معروف عالمِ دین اور امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ امین شہیدی نے محرم الحرام 1444 ھ کی نویں مجلس "بعثت سے ظہور تک” کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روایات کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے بارہویں جانشین امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو اللہ تعالی ان کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پُر کر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔ اہم سوال یہ ہے کہ امامِ عصرؑ کے ظہور تک ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ ہمیں ان کے اعوان و انصار میں شامل ہونے کے لئے کیا کرنا ہوگا اگرچہ ان کے ظہور کا وقت معین نہیں ہے۔ اس حوالہ سے بعض مقامات پر لوگ غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں کہ نہ جانے امامؑ کب تشریف لائیں، جب آئیں گے تو دیکھا جائے گا۔ اس قسم کے انتظار سے ایک منتظر کی زندگی پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا۔ اس کے مقابلہ میں اہل بیت علیہم السلام نے انتظار کے جس تصور اور فلسفہ سے ہمیں آشنا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم خود کو اور معاشرہ کے افراد کو امامِ عصرؑ کی آمد سے قبل تیار کریں۔ مکتبِ اہل بیتؑ میں انتظار کا فلسفہ جاندار ہے، وہ فلسفہ جو ایک منتظر کو بے چین کیے رکھے اور اس کے اندر ایسا شعور پیدا کر دے کہ اگر امامِ زمانؑ تشریف لائیں تو اسے کیسا کردار ادا کرنا ہوگا۔ چونکہ امامؑ ظلم کا قلع قمع کریں گے، اس لئے ضروری ہے کہ ان کے منتظر کو ظلم سے نفرت ہونی چاہیے، ظلم کی حمایت کرنا ان کے انتظار کے ہدف سے متصادم ہے۔ دیگر امور کے علاوہ ہماری زندگی کا محور امامِ عصرؑ کو بھی ہونا چاہیے کیونکہ وہ زندہ ہیں، ہم پر شہود ہیں اور آگاہ بھی ہیں۔ غافل نہیں ہیں! چونکہ امامؑ خود نور ہیں لہذا ان کے منتظر کو بھی نورانی اور پاکیزہ ہونا چاہیے۔

علامہ امین شہیدی نے مقاومتی بلاک کو ظہور کے لئے زمینہ سازی کا مقدمہ فراہم کرنے پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج سے تقریبا پچاس سال قبل مکتبِ تشیع صرف کتب میں نظر آتا تھا لیکن زمین کے ایک ٹکڑے (ایران) پر علوی حکومت کے قیام نے تمام عالمی طاقتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور ان کی تمام تر چالوں کے باوجود یہ علوی حکومت قائم ہے اور استقامت کے ساتھ میدان میں کھڑی ہے۔ اس علوی حکومت کے نظریات یمن، شام، لبنان، بحرین اور نائجیریا تک پھیل چکے ہیں۔ ہمیں شہید قاسم سلیمانی اور سید حسن نصراللہ جیسے سربکف مجاہدین اور آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی اور رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای جیسے دین شناس علماء کرام کی ضرورت ہے جو حقیقی منتظرینِ امام ہوں اور یزیدیت کے سامنے استقامت کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ ہم آہستہ آہستہ ظہور کی طرف بڑھ رہے ہیں لہذا یومِ عاشور پر امامِ عصرؑ سے اصحابِ امام حسین علیہ السلام کی طرح بیعت کیجئے۔ ہمیں سن 61 ہجری کی کربلا سے جڑے رہنا چاہیے۔ کربلا ہی وہ درس گاہ ہے جو وقت کے امام کی اطاعت و نصرت کا درس دیتی ہے۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …