جمعہ , 19 اپریل 2024

دمے کے دیر پا علاج کی بنیادی جڑ تلاش

لندن: دمے کا مرض انتہائی پریشان کن ہوتا ہے اور اب اس مرض کےدائمی علاج میں ایک اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ایسٹن یونیورسٹی اور امپیریئل کالج لندن کے ماہرین نے ایک نیا طریقہ کار دریافت کیا ہے جس میں انہوں نے دمے کے بنیادی جڑ تلاش کی ہے۔ چوہوں پر تجربات میں مجازی طور پر دمے کی ہرعلامت ختم ہوگئی اور ان کی سانس کی نالیاں دو ہفتے تک نارمل رہیں۔

پاکستان سمیت پوری دنیا میں دمے کا مرض انتہائی تکلیف دہ اور سالانہ ہزاروں ، لاکھوں افراد اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ فی الحال اس کا علاج اسٹیرائیڈز سے کیا جاتا ہے جس سے وقتی آرام آتا ہے۔ تاہم ایسٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر جل جانسن اور ان کے ساتھیوں نے اس ضمن میں اسٹیم سیل کی ایک خاص قسم پیری سائٹ پرغورکیا ہے۔ جو خون کی نالیوں کے اندرونی استر میں موجود ہوتا ہے۔ جب جب گردوغبار یا کسی وجہ سے دمے کا دورہ پڑتا ہے تو پیری سائٹ سانس کی نالیوں کی دیوار تک پہنچ جاتی ہیں۔ پھر یہ پٹھے کے خلیات میں ملکر موٹے ہوتے جاتے ہیں اور سانس کی نالیاں تنگ ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

معلوم ہوا کہ ایک قسم کا پروٹین سی ایکس سی ایل 12 پیری سائٹس کو حرکت دیتا ہے۔ اس کے لیے سائنسدانوں نے ایل آئی ٹی 927 نامی سالمہ (مالیکیول) بنایا ہے جو اس کے سگنل کو روکتا ہے۔ اسے سالمے کو چوہے کی ناک میں ڈالا گیا۔ جن جن چوہوں پر اسپرے کیا گیا تھا ، ان میں ایک ہفتے تک دمے کی کافی علامات ختم ہوگئیں۔

دوسری جانب ایل آئی ٹی 927 کے علاج سے سانس کی نالیوں کی باریکی بھی برقرار رہی۔ یہاں تک کہ دمے والے چوہے کی سانس کی نالیاں عین تندرست چوہوں جیسی ہوگئیں۔اب سائنسداں اس پر مزید تحقیق کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چوہوں پر اثر کے بعد انسانوں پر بھی اس کے فوائد دیکھے جاسکتے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

ڈائری لکھنے سے ذہنی و مدافعتی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

لندن:کمپیوٹرائزڈ اور اسمارٹ موبائل فون کے دور میں اب اگرچہ ڈائریز لکھنے کا رجحان کم …