ہفتہ , 20 اپریل 2024

جب ملکہ الزبتھ نے فیصل مسجد میں داخل ہوتے وقت جوتے اتار دیے

(عبداللہ جان) 

چھیانوے سال کی عمر میں گذشتہ روز وفات پانے والی برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم نے اپنی موت سے چند روز قبل ہی پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونے والی اموات اور تباہی پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا تھا۔

ملکہ الزبتھ نے 29 اگست کو پاکستان کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے نام ایک خط میں لکھا تھا: ’برطانیہ اس مشکل کی گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔‘

ملکہ نے اپنے پیغام میں مزید لکھا تھا کہ انہیں پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے المناک جانی نقصان اور تباہی کے بارے میں سن کر بہت دکھ ہوا۔

ملکہ الزبتھ کی، جن کا پورا نام الزبتھ الیگزینڈریا میری تھا، موت کا اعلان جمعرات کی رات ساڑھے دس بجے برطانیہ کے شاہی خاندان کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کیا گیا۔

1926 میں پیدا ہونے والی آنجہانی ملکہ الزبتھ کا پاکستان کے ساتھ تعلق کئی حوالوں سے تھا، جن میں سب سے پہلا رشتہ 14 اگست 1947 کو مملکت خداداد کے معرض وجود میں آتے ہی روپذیر ہوا۔

ہندوستان سے انگریزوں کے انخلا کے بعد جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے ابھرا تو اس وقت برطانیہ کے تخت پر یہی ملکہ الزبتھ دوم براجمان تھیں۔

آزادی کے فوراً بعد پاکستان کچھ عرصے تک سلطنت برطانیہ کی ایک وفاقی اکائی (فیڈرل ڈومینیئن) کے طور پر رہا، جس میں گورنر جنرل کو ملکہ برطانیہ کے نمائندے کی حیثیت حاصل تھی۔

تاہم 1956 میں ملک کے پہلے آئین کے بننے کے بعد پاکستان پر تاج برطانیہ کا تسلط پوری طرح ختم ہوا، اور برطانوی فیڈرل ڈومینیئن کے بجائے جمہوری ریاست کے طور پر جانا جانے لگا۔

تاج برطانیہ کے تسلط سے مکمل طور پر نکل جانے کے بعد بھی پاکستان کا ملکہ الزبتھ کے ساتھ تعلق قائم رہا، جو 1931 میں قائم ہونے والی تنظیم دولت مشترکہ (کامن ویلتھ آف نیشنز) کی صورت میں تھا۔

پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی دولت مشترکہ کا رکن بن گیا، اور ماضی میں برطانیہ کے زیر تسلط رہنے والے ممالک پر مشتمل اس تنظیم کی سربراہ ملکہ الزبتھ تھیں۔

پاکستان کے ساتھ ملکہ الزبتھ کا تعلق صرف دور سے ہی قائم نہیں تھا، بلکہ انہوں نے اپنی زندگی کے دوران کم از کم دو مرتبہ ماضی میں ان کی کالونی رہنے والے اس آزاد اور خود مختار ملک کا دورہ بھی کیا۔

پہلی مرتبہ ملکہ الزبتھ 1961 میں پاکستان آئیں، جب ان کی عمر 34 سال تھی، اور اس سرکاری دورے کے دوران انہوں نے 15 دن پاکستان میں گزارے۔

یکم سے 16 فروری تک جاری رہنے والے دورے میں ملکہ برطانیہ کے ساتھ ان کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ بھی موجود رہے، اور شاہی جوڑے نے کراچی، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور شمالی علاقوں کا دورہ کیا تھا۔

لباس کے معاملے میں ملکہ الزبتھ ہمیشہ سے خوش لباس خاتون رہی ہیں، اور ان کے پاکستان کے پہلے دورے کے دوران کراچی میں ایک تقریب کے لیے پہناوے سے متعلق پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈان نے لکھا تھا: ’ملکہ نے کمر پر بیلٹ والا پیلا لباس، میچنگ پروں کی ٹوپی، چاندی کے سرمئی دستانے اور جوتے، تین تاروں والا موتی کا ہار اور موتیوں کی بالیاں پہن رکھی تھیں۔ انہوں نے چاندی کا بھورے رنگ کا بیگ اٹھا رکھا تھا، اور بائیں کندھے پر ہیرے کا بروچ لگایا ہوا تھا۔‘

یکم فروری کو پاکستان کے اس وقت کے دارالحکومت کراچی پہنچنے پر صدر ایوب خان نے ان کا استقبال کیا، جبکہ شاہی جوڑے کو 21 توپوں کی سلامی بھی پیش کی گئی تھی۔

اس وقت کے اخبارات میں ملکہ الزبتھ دوم اور ان کے شوہر کو کراچی کے فریئر ہال میں ایک عشائیے کا ذکر بھی موجود ہے، جس میں لگ بھگ پانچ سو مہمان موجود تھے۔

اخباری رپورٹس کے مطابق ملکہ الزبتھ نے اس تقریب سے اپنے خطاب کا اختتام اردو کے ایک فقرے ’آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ‘ پر کیا، جس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا، اور صدر ایوب خان نے اپنی نشست سے اٹھ کر ملکہ کے لیے پرجوش انداز میں تالیاں بجائیں۔

ملکہ الزبتھ نے پاکستان کا دوسرا اور آخری دورہ 36 سال بعد اکتوبر 1997 میں ملک کی گولڈن جوبلی (پچاس سالہ تقریبات) کے موقع پر کیا، اور اس مرتبہ بھی ان کے شریک حیات شہزادہ فلپ ان کے ساتھ موجود تھے۔

اس مرتبہ شاہی جوڑا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچا، جہاں صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری اور وزیر اعظم نواز شریف نے ان کا استقبال کیا۔

اسلام آباد پہنچنے کے چند گھنٹوں بعد شاہی جوڑے کو فیصل مسجد لے جایا گیا، جہاں پاکستانی اخبارات کے مطابق: ملکہ الزبتھ نے مسجد میں موجودگی کے دوران سارا وقت اپنا سر تعزیما سفید دوپٹے سے ڈھانپے رکھا تھا۔‘

میڈیا رپورٹس کے مطابق ملکہ الزبتھ نے فیصل مسجد کے اندر جانے سے پہلے اپنے جوتے اتارے، اور ان کے پیروں کو زمین سے لگنے سے بچانے کی خاطر جرابیں چڑھا لیں تھیں۔

تاہم محمد فائق نے انڈپینڈنٹ اردو کو لکھا کہ ان کے والد انجینیئر عشرت تاج وارسی نے، جو اس وقت سی ڈی اے کے ایف ایم پی ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے، ملکہ کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھے۔

فائق کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے ملکہ کے جوتوں سمیت فیصل مسجد میں داخل ہونے کی مخالفت کی تھی اور ان کی مداخلت پر ہی ملکہ نے مسجد کے باہر جوتے اتار کر چمڑے کے موزے پہنے اور پھر مسجد میں داخل ہوئی تھیں۔

اسی دورے کے دوران انہیں پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات کی بہتری میں مثبت کردار ادا کرنے پر صدر فاروق احمد خان لغاری نے نشان پاکستان پیش کیا تھا، جبکہ ملکہ نے صدر اور وزیر اعظم نواز شریف کو باالترتیب نائٹ گرینڈ کراس آف دی آرڈر آف دی باتھ (جی سی بی) اور نائٹ گرینڈ کراس آف دی آرڈر آف سینٹ مائیکل اینڈ سینٹ جارج (جی سی ایم جی) دیے تھے۔

ملکہ الزبتھ کے دوسرے دورے کا اہم واقعہ ان کا پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینیٹ) کے مشترکہ اجلاس سے خطاب تھا، جس میں انہوں نے اسلام آباد اور دلی کے درمیان بہتر تعلقات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

اس دورے کے دوران ملکہ الزبتھ لاہور بھی گئیں، جہاں وزیر اعظم نواز شریف نے ان کے اعزاز میں شاہی قلعے میں پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔

لاہور میں قیام کے دوران ملکہ نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے)، کرائسٹ چرچ سکول اور گورنر ہاؤس بھی گئیں۔بشکریہ انڈپینڈیٹ اردو

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …