ہفتہ , 20 اپریل 2024

ایران کو اب ڈرایا نہیں جاسکتا

(تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی)

ہفتہ دفاع مقدس کے موقع پر دفاع مقدس کے سابق فوجیوں، کمانڈروں اور جنگجوؤں اور شہداء کے اہل خانہ کے ایک گروپ نے گذشتہ روز حسینیہ امام خمینی (رہ) میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کے سابق فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے منعقدہ اس تقریب میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ دفاع مقدس کے دوران یہ ثابت ہوگیا کہ ملک کی حفاظت اور دشمن کے خطرات کا مقابلہ ہتھیار ڈالنے سے نہیں بلکہ مزاحمت سے حاصل ہوتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران پر مسلط کی گئی آٹھ سالہ جنگ میں ایران کے مقابلے میں عالمی سامراج تھا، جو صدام کی ہر طرح سے مدد کر رہا تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ہفتہ دفاع مقدس کی آمد کی مناسبت سے دفاع مقدس کے کمانڈروں اور جانبازوں سے ملاقات میں فرمایا کہ دفاع مقدس کے حقائق کو دنیا والوں اور نئی نسل کو بتانے کی ضرورت ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران پر مسلط کی گئی جنگ کوئی اچانک حملہ نہیں تھا بلکہ صدام کی پشت پر عالمی سامراج تھا۔

آپ نے فرمایا کہ ایران کے انقلابی اور اسلامی نظام پر سامراجی حکومتوں کا حملہ غیر فطری نہیں تھا، کیونکہ یہ حکومتیں ایران کے اسلامی انقلاب سے سخت چراغ پا تھیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سامراجی طاقتیں سمجھ رہی تھیں کہ یہ انقلاب صرف سامراجی طاقتوں کی ایک وقتی سیاسی شکست نہیں ہے بلکہ اسلامی انقلاب تسلط پسندانہ نظام کے لئے ایک بڑا خطرہ تھا۔ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکی حکام کے لئے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ ایران کے عوام اس دور کی امریکا جیسی بڑی طاقت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں، اسی لئے امریکا نے ایرانی عوام سے انتقام لینے کی ٹھان لی اور اس نے طبس کے ناکام ہوائی حملے کے ذریعے کودتا کرانے اور ایران کے اندر اقوام کو اکسانے جیسے اقدامات کئے، لیکن جب اس کو کوئی نتیجہ نہیں ملا تو اس نے صدام کے ذریعے جنگ مسلط کرا دی، لیکن ایران کے عوام نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سبھی منصوبوں کو ناکام بنا دیا اور آج سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی عوام پوری قوت کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔

اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے مسلط کردہ جنگ کو اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم کے ساتھ دشمنی میں تسلط پسند حکومت کی سامراجی حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیا اور مزید کہا کہ عالمی طاقتوں کی ہمہ جہت حمایت اور پاگل صدام کی جارحیت کے مقابلے میں تین عناصر یعنی انقلاب کی نظریاتی طاقت، امام خمینی (رہ) کی انتہائی موثر قیادت اور ایرانی قوم کی اعلیٰ اور شاندار خصوصیات نے جنگ کے عظیم خطرے کو ایک موقع میں تبدیل کر دیا۔ ایران کی تاریخ کے اس پرجوش اور ولولہ انگیز باب کو نوجوان اور نوعمر نسل کے لیے صحیح اور درست بیان کرنا نیز کامیابیوں کا تسلسل انقلاب کو ضمانت فراہم کرے گا. درحقیقت صدام حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نوزائیدہ نظام کے خلاف جو استکباری جنگ شروع کی تھی، اس کے کئی اہداف تھے، جن میں اسلامی جمہوریہ کا زوال، ایران کی تقسیم اور انقلاب کے راستے میں بند باندھنا تھا۔ صدامی جارحیت کا ایک مقصد اسلامی انقلاب کے آزادی کے پیغام کو زیر تسلط ممالک تک پہنچنے سے روکنا تھا۔

رہبر انقلاب نے ایران پر جنگ مسلط کرنے کو اسلامی انقلاب کی فتح پر عالمی حکمرانوں کا فطری ردعمل قرار دیا اور فرمایا کہ ایرانی قوم کا انقلاب محض ایک محتاج اور کرپٹ نظام کی شکست نہیں تھا اور صرف امریکہ اور استکبار کے لیے ایک جزوی دھچکا نہ تھا بلکہ تسلط اور استکبار کے نظام کے خلاف ایک توانا اور مسلسل آواز تھی۔ اس خطرے کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے مغرب اور مشرق نے صدام کی حوصلہ افزائی کی اور اسے ایرانی قوم کے خلاف جنگ پر اکسایا اور اسکی ہر شعبے میں بھرپور حمایت کی۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد ایران جنگ کے لیے تیار نہیں تھا۔ ایران کے اداروں اور مسلح افواج کو منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف انقلاب دشمن جو اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھتے تھے، پورے ملک میں بدامنی پھیلانے کے درپے تھے۔ دشمن اس طرح جب اپنے اہداف حاصل نہ کرسکے تو انہوں نے عراق کی بعث حکومت کے ذریعے ایران کے خلاف 8 سالہ جنگ شروع کی اور اس حکومت کی ہتھیاروں کے علاوہ سفارتی، مالی اور سیاسی مدد کی۔

ان حمایتوں کی ایک واضح مثال مسلط کردہ جنگ میں مشرقی اور مغربی طاقتوں کی بے مثال صف بندی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ امریکہ اور سوویت یونین جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ میں ایک دوسرے کے مخالف تھے، دونوں صدام کی حکومت کے حامیوں میں شامل تھے اور اس حکومت کو ہر قسم کے ہتھیار اور مالی امداد فراہم کر رہے تھے۔ اس کے باوجود ایران اسلامی کے عوام نے امام خمینی (رہ) کی قیادت میں اور مجاہدانہ مزاحمت کے ساتھ نہ صرف اپنے دشمنوں کو شکست دی بلکہ مزاحمتی ثقافت کی شکل میں بے مثال کارنامے انجام دیئے، جو کہ ایک لازوال مثال ہے۔ ملت ایران اور امت اسلامی ماضی میں بھی اور آج بھی اسلامی اقدار کے دفاع اور دشمنوں کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں ہے۔ دفاع مقدس کا ایک اور کارنامہ عالمی میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار کو ثابت کرنا ہے، کیونکہ دفاع مقدس سے پہلے دشمنوں کا خیال تھا کہ ایران کے اسلامی نظام کو فوجی حملے سے گرایا جا سکتا ہے، لیکن جنگ کے بعد انہیں اپنی اس سوچ کو بدلنا پڑا۔

دفاعی صنعت میں ڈیٹرنس، خود کفالت اور مقامی دفاعی حکمت عملی بھی مقدس دفاع کی دیگر کامیابیوں میں شامل ہے۔ اب اسلامی جمہوریہ ایران میزائلوں اور ڈرونز سمیت مختلف قسم کے ہتھیاروں کی تیاری میں پیشرفت کی وجہ سے دفاعی طاقت کے لحاظ سے ڈیٹرنس کی سطح پر ہے اور ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو برآمد بھی کر رہا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کے فضل و کرم سے آج ملک دفاعی لحاظ سے مدافعت و دفاع کے مرحلے پر پہنچ گیا ہے اور اب بیرونی خطرات کے حوالے سے کوئی تشویش نہیں ہے اور دشمن بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج ایران دفاعی میدان میں اس قدر توانا ہوگیا ہے کہ دشمن بھی جانتا ہے کہ ایران کو آنکھیں نہیں دکھائی جاسکتیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی دیکھیں

غزہ میں جنگ بندی اسرائیل کی نابودی کے مترادف ہے، انتہاپسند صہیونی وزیر

یروشلم:بن گویر نے حماس کے ساتھ ہونے والی عارضی جنگ بندی کو اسرائیل کی تاریخی …